درسِ قرآن:محبت اور اطاعت
حافظ سید زاہد حسین
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى
يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ
لَا يُحِبُّ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٣٢﴾آلِ عمران
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، "اگر تم حقیقت
میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا
اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے" اُن سے کہو کہ "اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو" پھر تم اگر وہ
تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت
کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں"۔
اللہ سے محبت اور سب سے بڑھ کر محبت ایمان کا تقاضا ہے ۔
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ (البقرہ:165)
" ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب
رکھتے ہیں"۔
یعنی اہلِ ایمان کو
سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرنا چاہیے۔لیکن محبت بالجبر نہیں ہوسکتی۔محبت کی بنیاد
واقفیت اور وابستگی ہے۔ بغیر واقفیت کے محبت ممکن نہیں ہے اور بغیروابستگی و تعلق
کے اس میں شدت ناممکن ہے۔
انسان اس کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوںاور اس خود اس کی
ذات میں موجود شواہد پر غور کرکے اس حقیقت کو تو پاسکتا ہے کہ اس جہان کا ایک خالق
ہے۔ وہ یہ بھی جان سکتا ہے کہ خالقِ کائنات ہی منتظم ِ کائنات بھی ہے۔ یہ کائنات
اس کی تدبیر سے چل رہی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کائنات میں کارفرما ساری
قوتیں اس خالق کے حکم سے اس کی زندگی کے قیام و بقا میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ۔
ان سب حقائق سے آگاہی حاصل کرلینے کے باوجود محض اپنی عقل
کے سہارے وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ خالق نے کائنات کیوں تخلیق کی ہے؟اس
کائنات میں انسان کا کردار کیا ہے؟اسے ایک محدود مدت دے کر یہاں کیوں بھیجا گیا ہے
؟اس کے اختیار اور آزادی کی حد کیا ہے؟ موت اس کی فنا کا نام ہے یا کسی اور شکل
میں وہباقی رہتا ہے؟اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے؟ اس کے عظیم الشان احسانات کا
شکر وہ کس طرح اداکرسکتا ہے؟اس دنیا میں اس کی کوئی ذمے داری ہے بھی کہ نہیں؟ اگر
ہے تو اس کی ادائی کا طریقہ کیا ہے؟
غرض اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جن کے جوابات اس کے پاس
موجود نہیں ہیں۔
خالقِ کائنات کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے انسان کے ذہن میں
اٹھنےوالے ان سوالات کے جوابات اورعملی رہ نمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث کیا
جنہوں نے انسانوں کولاعلمی اور جہالت کے اندھیروں
سے نکال کر علم کی روشنی میں لاکھڑا کیا۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکے حوالے سے
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ
لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ
لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿الحدید:٩﴾
"وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل
کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ
اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے"۔
یہ ہدایت اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے ، اس کا صحیح اندازہ وہی
لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ" اولوالباب"(عقل والے) کہتا ہے۔ اس
کی اہمیت کا کچھ اندازہ مکہ میں موجود ان چند اصحاب کی سرگزشت سے لگایا جاسکتا ہے
جو نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے گزرے ہیں ۔ یہ سلیم الفطرت افراد اپنے غور وفکر کی
بنیاد پر یہاں تک تو پہنچ گئے تھے کہ : ربنا ماخلقت ھٰذا باطلا۔یعنی
"اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب کچھ فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے"۔
لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر انہیں کیا کرنا ہے یہ معلوم کرنے
کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہ تھا۔ نتیجتاً ایک اضطراب تھا جس میں وہ مبتلا تھے۔ان
کی کیفیت کا اندازہ اس ایک شخص کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے جن کا نام زیدبن عمروبن
نفیل ہے۔ جو شدتِ جذبات میں مکہ کی سرزمین پر لوٹیں لگاتے اور پکار پکار کر کہتے
کہ "اے میرے رب! میں نہیں جانتا کہ ابراہیم ؑ تجھے کس طرح پکارتا تا ، کس طرح
تیری بندگی کرتا تھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسی طرح تجھے پکارتا اور تیری
بندگی کرتا ۔ہاں میں یہ جانتا ہوں کہ اہلِ مکہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ ابراہیم ؑ کا
طریقہ نہیں ہوسکتا"۔
ہم پر اللہ رب العالمین کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نےسلسلہ
نبوت چلایااور محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایاجنہوں نے ہمارے سامنے علم و عمل کی
شمع روشن کردی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتا ب کے ذریعے اپنا
تعارف ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اس کے ذریعے ہمیں شعور بخشا کہ یہ ساری کائنات
ہمارے لیے تخلیق کی گئی ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًا
فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
﴿٢٨﴾ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ
إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ
عَلِيمٌ ﴿٢٩﴾(البقرہ)
"تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو
حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا،
پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے وہی
تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ
فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے"۔
ہماری تخلیق کا مقصد ہمیں بتایاکہ اللہ نے ہمیں اپنی بندگی کے لیے پید اکیا گیا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
﴿٥٦﴾
"میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے
پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں"۔
یہ بندگی اتنی بڑی اور ایسی عظیم الشان چیز ہے کہ اگر اس کی حقیقت انسان کی سمجھ میں
آجائے تو وہ پکار اٹھتا ہے
؎ مقامِ بندگی دے
کر نہ لوں شانِ خداوندی !
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں موجود تمام طاقتوں پر ہمیں
فوقیت عطا فرمادی اور ہمیں مخلوق کی اطاعت و بندگی کی ذلت سے بچا لیااور اپنے
سواہر ایک کی محتاجی سے بے نیاز کردیا۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے ادراک سے بندہ
مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت پیدا ہوتی ہے اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ
کی عظمت اور بندے پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ادراک وشعور بڑھتا جاتا ہےویسے
ویسے اللہ سے محبت اور تعلق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر وہ مقام آتا ہے کہ
اللہ تعالیٰ اس محبت کی تصدیق فرماتے ہوئے اسے اہلِ ایمان کی نشانی قرار دیتا ہے:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ (البقرہ:165)
" ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب
رکھتے ہیں"۔
توحید تو یہ کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے! (محمد علی جوہر)
یہاں تک پہنچ کر بھی انسان حیران ہے کہ اللہ سے محبت کا
اظہار کیسے کرے ۔ اس محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کیسے کرے ؟اس کے لیے اللہ کا یہ
احسان ہے کہ اس نےایک نمونہء کامل محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اطہر کی صورت میں عطا
فرمادیا۔ آپ نے اللہ سے محبت و وفاداری کا کامل عملی نمونہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔اسی
لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اس نمونہء
کامل کو دیکھو کہ کس طرح اللہ سے محبت کرتا ہےاور اسی کی اتباع میں تم بھی محبتِ
الٰہی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرواور اگر تم اپنی حد تک اس کوشش میں کام یاب ہوگئے
تو وہ رتبہء بلند حاصل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
نبی اکرم ﷺ صرف بتانے والے ہی نہیں بلکہ عمل کرکے دکھانے
والے بھی ہیں۔مثالی(اآئیڈیل) اور سب سے معیاری مسلم (فرماں بردار)ہیں۔اللہ کی
اطاعت کا پیغام دوسروں تک پہنچانے سے قبل وہ خود سراطاعت جھکانے والے ہیں:
انا اوـل المسلمون۔ "سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں"۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْءَاخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّهَ
كَثِيرًا ﴿الاحزاب:٢١﴾
"در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک
بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت
سے اللہ کو یاد کرے"
چونکہ رسول دنیا میں اللہ
کا نمائندہ اور اللہ کی مرضی جاننے کا واحد ذریعہ ہے ، اسی لیے فرمایا:
مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ وَمَن
تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴿النساء:٨٠﴾
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی
اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا
ہے"۔
گویا رسول سے وفاداری اصلاً اللہ تعالیٰ سے وفاداری ہے اور وفاداروں
ہی کے لیے سب کچھ ہے ۔جس سے اللہ محبت کرنے لگے اس کی خوش بختی کے کیا کہنے ۔ اس
بات کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
آج محمد ﷺ سے وفاداری کوآپ کی اطاعت سےا لگ کوئی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ وفاداری
اور محبت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن آپ کے نمونہء عمل سے دوری کم نہیں کی جاتی ۔زیادہ
سے زیادہ کوشش کی بھی گئی تو کچھ لباس میں ، کچھ حلیہ میں آُپ کی تقلید کی کوشش کی
گئی ، لیکن عمومی طور پرآپ کی شخصیت ، کردارواخلاق اور نصب العین کو نظر انداز
کردیا۔ جس مقصد کے لیے اللہ کے رسول نے اپنی زندگی کھپادی ، یعنی اللہ کے بندوں کو
اللہ سے وابستہ کیا جائے ، اللہ کے دین کو ذات اور زمین پر قائم کیا جائے ، اس کی
پرواہ ہی نہ کی ۔ نہ اللہ سے وابستہ ہوئے اور نہ دین کے نفاذ میں کوئی دل چسپی لی
۔
میں تیرے مزار کی
جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق
میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب
کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دی
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دی
عنایت علی خان
اللہ سے محبت کا کوئی
تصور ہی ذہن میں موجود نہ رہا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ بات کی تو اللہ سے ڈرنے کی بات
کی اور یہ ڈر و خوف کی بات صرف بات ہی رہی عملاً بے خوفی ہی کا رویہ اختیار کیے
رکھا۔
درحقیقت ہن نے بحیثیت ِ
مجموعی نہ اللہ کے رسول کو سمجھا ،نہ ان کے کام کو سمجھا اور نہ اس سے محبت
ووفاداری کے تقاضوں کو سمجھا ۔ اگر سمجھ لیا ہوتا تو اآج امت کی یہ حالت نہ ہوتی
جو ہے !
آئیے ذرا قرآنِ مجید سے
اللہ کے رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں۔(جاری ہے)