Wednesday, 11 February 2015


درسِ قرآن:محبت اور اطاعت
حافظ سید زاہد حسین
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ قُلْ أَطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا۟ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْكَٰفِرِينَ ﴿٣٢﴾آلِ عمران
"اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، "اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے" اُن سے کہو کہ "اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو" پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں"۔
اللہ سے محبت اور سب سے بڑھ کر محبت ایمان کا تقاضا ہے ۔
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ (البقرہ:165)
" ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں"۔
یعنی  اہلِ ایمان کو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرنا چاہیے۔لیکن محبت بالجبر نہیں ہوسکتی۔محبت کی بنیاد واقفیت اور وابستگی ہے۔ بغیر واقفیت کے محبت ممکن نہیں ہے اور بغیروابستگی و تعلق کے اس میں شدت ناممکن ہے۔
انسان اس کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوںاور اس خود اس کی ذات میں موجود شواہد پر غور کرکے اس حقیقت کو تو پاسکتا ہے کہ اس جہان کا ایک خالق ہے۔ وہ یہ بھی جان سکتا ہے کہ خالقِ کائنات ہی منتظم ِ کائنات بھی ہے۔ یہ کائنات اس کی تدبیر سے چل رہی ہے۔ وہ یہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کائنات میں کارفرما ساری قوتیں اس خالق کے حکم سے اس کی زندگی کے قیام و بقا میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ۔
ان سب حقائق سے آگاہی حاصل کرلینے کے باوجود محض اپنی عقل کے سہارے وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ خالق نے کائنات کیوں تخلیق کی ہے؟اس کائنات میں انسان کا کردار کیا ہے؟اسے ایک محدود مدت دے کر یہاں کیوں بھیجا گیا ہے ؟اس کے اختیار اور آزادی کی حد کیا ہے؟ موت اس کی فنا کا نام ہے یا کسی اور شکل میں وہباقی رہتا ہے؟اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے؟ اس کے عظیم الشان احسانات کا شکر وہ کس طرح اداکرسکتا ہے؟اس دنیا میں اس کی کوئی ذمے داری ہے بھی کہ نہیں؟ اگر ہے تو اس کی ادائی کا طریقہ کیا ہے؟
غرض اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جن کے جوابات اس کے پاس موجود نہیں ہیں۔
خالقِ کائنات کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے انسان کے ذہن میں اٹھنےوالے ان سوالات کے جوابات اورعملی رہ نمائی کے لیے انبیاء کرام کو مبعوث کیا جنہوں نے انسانوں کولاعلمی اور جہالت کے اندھیروں  سے نکال کر علم کی روشنی میں لاکھڑا کیا۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿الحدید:٩﴾
"وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے"۔
یہ ہدایت اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے ، اس کا صحیح اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ" اولوالباب"(عقل والے) کہتا ہے۔ اس کی اہمیت کا کچھ اندازہ مکہ میں موجود ان چند اصحاب کی سرگزشت سے لگایا جاسکتا ہے جو نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے پہلے گزرے ہیں ۔ یہ سلیم الفطرت افراد اپنے غور وفکر کی بنیاد پر یہاں تک تو پہنچ گئے تھے کہ : ربنا ماخلقت ھٰذا باطلا۔یعنی "اے ہمارے رب ! تو نے یہ سب کچھ فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے"۔
لیکن اب اس سے آگے بڑھ کر انہیں کیا کرنا ہے یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ان کے پاس نہ تھا۔ نتیجتاً ایک اضطراب تھا جس میں وہ مبتلا تھے۔ان کی کیفیت کا اندازہ اس ایک شخص کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے جن کا نام زیدبن عمروبن نفیل ہے۔ جو شدتِ جذبات میں مکہ کی سرزمین پر لوٹیں لگاتے اور پکار پکار کر کہتے کہ "اے میرے رب! میں نہیں جانتا کہ ابراہیم ؑ تجھے کس طرح پکارتا تا ، کس طرح تیری بندگی کرتا تھا۔ اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اسی طرح تجھے پکارتا اور تیری بندگی کرتا ۔ہاں میں یہ جانتا ہوں کہ اہلِ مکہ جو کچھ کر رہے ہیں یہ ابراہیم ؑ کا طریقہ نہیں ہوسکتا"۔
ہم پر اللہ رب العالمین کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نےسلسلہ نبوت چلایااور محمد رسول اللہ ﷺ کو مبعوث فرمایاجنہوں نے ہمارے سامنے علم و عمل کی شمع روشن کردی۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتا ب کے ذریعے اپنا تعارف ہمارے سامنے رکھ دیا ہے ۔ اس کے ذریعے ہمیں شعور بخشا کہ یہ ساری کائنات ہمارے لیے تخلیق کی گئی ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِٱللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَٰتًا فَأَحْيَٰكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾ هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ ﴿٢٩﴾(البقرہ)
"تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویہ کیسے اختیار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے، اس نے تم کو زندگی عطا کی، پھر وہی تمھاری جان سلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا، پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے"۔
ہماری تخلیق کا مقصد ہمیں بتایاکہ اللہ نے  ہمیں اپنی بندگی کے لیے پید اکیا گیا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾
"میں نے جن اور انسانوں کو اِس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں"۔
یہ بندگی اتنی بڑی اور ایسی عظیم الشان  چیز ہے کہ اگر اس کی حقیقت انسان کی سمجھ میں آجائے تو وہ پکار اٹھتا ہے
؎   مقامِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی !
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں موجود تمام طاقتوں پر ہمیں فوقیت عطا فرمادی اور ہمیں مخلوق کی اطاعت و بندگی کی ذلت سے بچا لیااور اپنے سواہر ایک کی محتاجی سے بے نیاز کردیا۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے ادراک سے بندہ مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت پیدا ہوتی ہے اور جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور بندے پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ادراک وشعور بڑھتا جاتا ہےویسے ویسے اللہ سے محبت اور تعلق میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر وہ مقام آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس محبت کی تصدیق فرماتے ہوئے اسے  اہلِ ایمان کی نشانی قرار دیتا ہے:
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ (البقرہ:165)
" ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں"۔
توحید تو یہ کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لیے ہے! (محمد علی جوہر)
یہاں تک پہنچ کر بھی انسان حیران ہے کہ اللہ سے محبت کا اظہار کیسے کرے ۔ اس محبت کا حق ادا کرنے کی کوشش کیسے کرے ؟اس کے لیے اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نےایک نمونہء کامل محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ اطہر کی صورت میں عطا فرمادیا۔ آپ نے اللہ سے محبت و وفاداری کا کامل عملی نمونہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اس نمونہء کامل کو دیکھو کہ کس طرح اللہ سے محبت کرتا ہےاور اسی کی اتباع میں تم بھی محبتِ الٰہی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرواور اگر تم اپنی حد تک اس کوشش میں کام یاب ہوگئے تو وہ رتبہء بلند حاصل ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
نبی اکرم ﷺ صرف بتانے والے ہی نہیں بلکہ عمل کرکے دکھانے والے بھی ہیں۔مثالی(اآئیڈیل) اور سب سے معیاری مسلم (فرماں بردار)ہیں۔اللہ کی اطاعت کا پیغام دوسروں تک پہنچانے سے قبل وہ خود سراطاعت جھکانے والے ہیں:
انا اوـل المسلمون۔ "سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں"۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ ٱللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلْيَوْمَ ٱلْءَاخِرَ وَذَكَرَ ٱللَّهَ كَثِيرًا ﴿الاحزاب:٢١﴾
"در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے"
چونکہ رسول دنیا میں اللہ  کا نمائندہ اور اللہ کی مرضی جاننے کا واحد ذریعہ ہے ، اسی لیے فرمایا:
مَّن يُطِعِ ٱلرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ ٱللَّهَ ۖ وَمَن تَوَلَّىٰ فَمَآ أَرْسَلْنَٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ﴿النساء:٨٠﴾
"جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے"۔
گویا رسول سے وفاداری اصلاً اللہ تعالیٰ سے وفاداری ہے اور وفاداروں ہی کے لیے سب کچھ ہے ۔جس سے اللہ محبت کرنے لگے اس کی خوش بختی کے کیا کہنے ۔ اس بات کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے:
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں!
آج محمد ﷺ سے وفاداری کوآپ کی  اطاعت سےا لگ کوئی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ وفاداری اور محبت کی بات تو کی جاتی ہے لیکن آپ کے نمونہء عمل سے دوری کم نہیں کی جاتی ۔زیادہ سے زیادہ کوشش کی بھی گئی تو کچھ لباس میں ، کچھ حلیہ میں آُپ کی تقلید کی کوشش کی گئی ، لیکن عمومی طور پرآپ کی شخصیت ، کردارواخلاق اور نصب العین کو نظر انداز کردیا۔ جس مقصد کے لیے اللہ کے رسول نے اپنی زندگی کھپادی ، یعنی اللہ کے بندوں کو اللہ سے وابستہ کیا جائے ، اللہ کے دین کو ذات اور زمین پر قائم کیا جائے ، اس کی پرواہ ہی نہ کی ۔ نہ اللہ سے وابستہ ہوئے اور نہ دین کے نفاذ میں کوئی دل چسپی لی ۔
میں تیرے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
تیرے دشمنوں نے تیرے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا
تیرے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دی
عنایت علی خان
اللہ سے محبت کا کوئی تصور ہی ذہن میں موجود نہ رہا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ بات کی تو اللہ سے ڈرنے کی بات کی اور یہ ڈر و خوف کی بات صرف بات ہی رہی عملاً بے خوفی ہی کا رویہ اختیار کیے رکھا۔
درحقیقت ہن نے بحیثیت ِ مجموعی نہ اللہ کے رسول کو سمجھا ،نہ ان کے کام کو سمجھا اور نہ اس سے محبت ووفاداری کے تقاضوں کو سمجھا ۔ اگر سمجھ لیا ہوتا تو اآج امت کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہے !
آئیے ذرا قرآنِ مجید سے اللہ کے رسول کو سمجھنے کی کوشش کریں۔(جاری ہے)



Monday, 9 February 2015

ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک

تازہ خواہ داشتن گرداغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہئ پارینہ را
(اگر تُم چاہو کہ سینے کے داغ تازہ رہیں،توکبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کرو!)
سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہادکا مختصرتعارف و تذکرہ گزشتہ قسط میں دیا جاچکا ہے۔سید احمد شہید کی شخصیت ، ان کی جماعت اور ان کے ساتھیوں کی کیفیت کاکچھ احوال اس مضمون میں بیان کیا جائے گا۔ درحقیقت ایمان کو نشونما دینے اور ایمانی جذبات میں حرارت پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ایسے افراد اور جماعتوں کی سرگزشتوں سے واقفیت حاصل کی جائے ، ان کے مطالعے میں وقت صرف کیا جائے ، جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ رب العزت کی رضااور اس کے دین کی سربلندی کی خاطر وقف کردیں ہوں اور اس راستے میں کسی قربانی سے پیچھے نہ رہے ہوں ۔
سید احمد شہید کی تحریک ِ جہاد کے پس منظر کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ اس کی خصوصیا ت مندرجہ ذیل تھیں:
١۔    سید احمد شہید کی سیرت کے اثرات
کوئی بھی تحریک اپنے قائد کی سیرت و مزاج کا گہرا اثر قبو ل کیے بنا نہیں رہتی یہ ایک عام مشاہدہ ہے ۔ جہاں بات بانی قائد کی آجائے تو وہاں مرکزی شخصیت کے اثرات کتنے ہمہ گیر ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ دشوار نہیں۔آپ عبادت و ریاضت میں پیش قدمی کرنے والے ، رضا بقضا(جو حالت پیش آجائے اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کرنے والے گویا مرضیئ مولا ازہمہ اولیٰ)پر عامل تھے۔ ہر بڑے حادثے اور شدید آفت کے بعد برہنہ سر ہوکر دعا کرتے اور فرماتے ''بھائیو! جو مصیبت ہم پر آئی یہ ہماری کسی غلطی اور خطا کا نتیجہ ہوگی ''۔ عفوودرگزر آپ کی سیرت کا نمایا ں پہلو تھا۔ جانی دشمنوں تک کو معاف کردیتے ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ میری فطرت ابتدا سے یہی رہی ہے کہ دوسروں کی بدی کے عوض بھی ان کے ساتھ نیک سلوک کروں ۔حلم وحیا و مروت آپ کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ شجاعت و سخاوت میں آپ بے مثال تھے۔ آپ کو اعلیٰ درجے کی فراست عطا ہوئی تھی۔ خود فرماتے تھے کہ مجھے خدا نے تین چیزوں کی پیچان عطاکی ہے۔ گھوڑا، تلوار اور آدمی ! صبرواستقامت ار توکل کی جو مثالیں آپ نے قائم کیں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مشکل راستہ آپ نے رخصتوں کو ترک کرکے شاہراہ ِ عزیمت پر گامزن ہوکر اختیار کیا تھا۔ دوست دنیوی مفاد کی خاطر دشمن بن گئے اور ہر ممکن ایذا پہنچائی لیکن آپ نے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑی ۔
فنونِ حرب اور شوقِ جہاد:    سید صاحب کی سیرت کے جو ابتدائی نقوش ہمیں ملتے ہیں ان میں ورزشیں ،فنون حرب اورمردانہ کھیلوں سے دل چسپی ، خدمتِ خلق اور جذبہئ جہاد بہت نمایاں ہیں۔ وہ خود فرماتے تھے کہ عہدِ طفلی سے یہ بات میرے دل میں جم گئی تھی کہ میں کافروں سے جہاد کروں گا اور اکثر اس کا اظہار ہوتا رہتا۔بچپن میں اس کی شکل بچوں کے دو گروہ لشکرِ اسلام اور لشکر کفر، بنا کر ان کے مابین جنگ کی رہتی ۔
والدہ محترمہ کا جذبہ:     نوجوانی میں ایک مرتبہ رائے بریلی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ سید صاحب بھی تلوار سنبھال کر والدہئ ماجدہ سے اجازت کے انتظار میں کھڑے ہوگئے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔جس خاتون نے سید صاحب کو بچپن میں کھلایا پلایا تھا وہ آپ کو روک رہی تھیں ۔سلام پھیر کر والدہ نے واقعہ دریافت کیا۔ سب کچھ سن کر کھلائی سے کہا بوا ، بے شک تمہیں احمد سے محبت ہے مگر میرے برابر نہیں ہوسکتی ۔ میرا حق تمہارے حق پر فائز ہے۔ یہ روکنے کا کونسا موقع ہے؟انہیں جانے دو۔ پھر جگر بند سے مخاطب ہو کر فرمایا: جلد جاؤ لیکن دیکھنا ، مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرنا اور اگر مخالف فریق جانے کے لیے راستہ مانگے تو دے دیناورنہ عمر بھر تمہاری صورت نہ دیکھوں گی ۔
غیر معمولی جسمانی قوت:    قدرت نے دیگر صلاحیتوں کے ساتھ سید احمد شہید کو غیر معمولی جسمانی قوت سے نوازا تھا۔ اس حوالے سے کئی واقعات ملتے ہیں۔مثلاً ایک ایسا پتھر جسے بڑے بڑے پہلوان صرف گھٹنوں تک یا کمر تک بہ مشکل اٹھا سکتے تھے سید صاحب نے بلاتکلف اسے اٹھا کرکندھے پر رکھا اور بیس قدم پر لے جاکر پھینکا۔ اس کے وزن سے ہاتھ بھر زمین کھُد گئی۔ عام لوگ سمجھتے رہے کہ یہ کسی جن یا دیو کا کام ہے۔ 
آپ کی دیگر کوششوں کی طرح یہ ورزشیں اور قوت بھی اسی ٖغرض کے لیے تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ میں کام دے اور دین کی خدمت کا حق ادا کرنے میں مددگار ہوں ۔
قلبِ سلیم اور فطری سعادت:    سید صاحب کی پوری زندگی ایامِ طفلی سے لے کر آخر عمرتک سلامتی طبع اوراتباعِ سنت کا نمونہ رہی۔ ان کی سیرت کے معلوم واقعا ت میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس قول کے منافی ہو۔اتباعِ سنت اور راہِ عزیمت ان کے ہر ہر عمل سے نمایاں ہیں۔
حق گوئی و بے باکی:    اس دور میں سنت سے بے اعتنائی اس درجہ عام ہوئی تھی کہ سلام مسنون کی جگہ آداب و تسلیمات رائج تھیںاور بعض اونچے گھرانوں میں تو سلامِ مسنون کو آدابِ مجلس کے خلاف سمھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ شاہ عبدالعزیز ؒ کے خاندان میں بھی اس خرابی نے رواج پالیا تھا۔ سید صاحب جب شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں پہنچے تو سیدھے طریقے سے ''السلام علیکم''۔ شاہ صاحب اتنے خوش ہوئے کہ حکم دے دیا آئندہ سب لوگ اسی طریقے پر سلام کیا کریں ۔ 
دوسرا اور زیادہ اہم واقعہ اس وقت کا ہے جب شاہ عبدالعزیز نے سید صاحب کو بیعت کے بعد مختلف اشغالِ صوفیہ کی تعلیم دی جس میں سے ایک شغلِ برزخ ہے جس میں صورتِ شیخ کامراقبہ کیا جاتا ہے۔ تصورِ صورتِ شیخ کا حکم سنا تو سید صاحب نے ادب سے عرض کیاکہ حضرت! اس شغل اور بت پرستی میں کیا افرق ہوا؟مفصل ارشاد ہو۔ شاہ عبدالعزیز نے خواجہ حافظ کا مشہور شعر پڑھا:    بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
        
کہ سالکِ بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا
''
اگر مرشد جانماز پر شراب نوشی کا کہے تو بھی کرگزرو کہ سالک) اس راستے (طریقت)کے طور طریق سے ناواقف ہے''۔
سیّد صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ میں آپ کا فرماں بردار ہوں اس لیے کسبِ فیض کی غرض سے آیا ہوں، لیکن تصور شیخ تو صریحاً بت پرستی معلوم ہوتی ہے ۔ اس خدشے کو زائل کرنے کے لیے قرآن یاحدیث سے کوئی دلیل پیش فرمائیں ورنہ اس عاجز کو ایسے شغل سے معاف رکھیں۔ شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی سیّد صاحب کو سینے سے لگا لیا۔ رخساروں اور پیشانی پر بوسے دیئے اور فرمایا اے فرزند ارجمند !خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے۔ 
علمی مقام و مرتبہ :    نواب صدیق حسن خان ؒ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگرچہ سید صاحب نے علمِ ظاہر میں پوری دستگاہ حاصل نہیں کی تھی لیکن علمِ باطن میں وہ درجہئ کمال کو پہنچ چکے تھے ۔ خلقِ خدا کو راہِ ہدایت پر لگانے میں انہیں خدا کا ایک نشان سمجھنا چاہیے ۔ خلاصہ یہ کہ ماضی ئ قریب میں سید صاحب جیسے صاحبِ کما ل کا نشان کسی خطے میں نہیں ملتااور ان کی جماعتِ منصورہ سے خلقِ خدا کو فیوض کی جو دولت ملی ہے اس کے عشرِ عشیر کا سراغ بھی دنیا کے دوسرے مشائخ و علماء کے ہاں نہیں مل سکتا۔
عالم کا صحیح مفہوم:    ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں آپ نے عالم کی تعریف اس طرح فرمائی:
عالم سے یہ مراد نہیں کہ وہ صدر اور شمسِ بازغہ پڑھ چکا ہو۔ یہاں علم سے یہی مراد ہے کہ جانتا ہو، اونچی شان والا پروردگار کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض (یعنی اوامر و نواہی کا اے پوراعلم ہو)صدیق اکبر اور عمرفاروق نے ہدایہ یا شرح وقایہ نہیں پڑھی تھیں، لیکن وہ ہدایہ اور شرحِ وقایہ کے مصنفوں کے پیشوا تھے ، نہ صرف یہ لوگ بلکہ ان کے پیشوا او رمجتہدین بھی انہیں ہادیانِ دین کے کلامِ پاک سے سندیں لاتے ہیں اور اسے کسوٹی قراردے کر کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتے ہیں ''۔
طریقہئ محمدیہ:    تصوف کے بگاڑ اور اس کے بارے میں ہماری رائے سے قطع نظر اس طریقے میں جوکچھ خوبیاں ہوسکتی ہیں ، سید احمد شہید ان کا نمایاں ثبوت تھے۔ان کے دور میں ہندوستان میںتصوّف کے تین طریقے قادری، چشتی اور نقشبندی رائج تھے۔ ایک طریقہ شیخ احمد سرہندی کے انتساب کے باعث مجدد یہ کہلاتا تھا۔ سیّدصاحب ان طریقوں کے علاوہ طریقہ محمدیہ ؐ میں بھی بیعت لیتے تھے۔ طریقہ محمدیہ یہ تھا کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے الٰہی کے لیے کیاجائے ۔ نکاح کی غرض یہ ہو کہ انسان فسق و فجور سے بچا رہے۔ تجارت یا ملازمت اس نیت سے کی جائے کہ حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اہل و عیال کو بھی کھلائے۔ رات کے آرام کا مدعا یہ ہو کہ جوف لیل میں اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے اور فجر اول وقت پڑھے۔ کھانا اس لیے کھائے کہ جسم میں بقدر ضرورت طاقت بحال رہے تاکہ انسان اللہ کے احکام مستعدی سے بجا لائے ۔ نماز پڑھے ۔ روزے رکھے حج کے لیے جائے اور ضرورت پڑے تو جہاد کے لیے تیار ہو۔ غرض مقصود احکام خدا وندی کی بجاآوری اور مرضیات باری تعالیٰ کی پابندی کے سوا کچھ نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر ہر فرد آیہ مبارکہ ان صلاتی ونسکی و محیا یٰ ومماتی للّٰہ رب العالمین کا عملی نمونہ بن جائے۔
مقصد کی لگن :    سید شہید کی پوری زندگی اپنے متعینہ مقصد کے ساتھ وابستگی کی دلیل ہے ۔اللہ کی رضا کا حصول ابتدا سے آپ کی زندگی کا مقصد تھا جس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا طریقہ آپ نے اختیار کیا۔ آپ کی پوری زندگی اسی حوالے سے بسر ہوئی ۔
معاشرتی خرابیوں کی اصلاح:    آپ کی دعوت دوسروں سے بڑھ کر پہلے خود عمل کرنے کی تھی ۔ آپ نے احیائے سنت کے لیے نکاحِ بیوگان کی مہم چلائی اور اس سنت کا اپنے گھر سے آغاز کیااور اپنی جوان بیوہ بھاوج سے نکاح ِ ثانی کیا۔ آپ کی اور آپ کے رفقاء کوششوں سے متاثر ہوکربے شمار لوگوں نے توبہ کی اور معاشرے سے بدعات،رفض وشیعت، غلط اعتقاداور عملی خرابیوں کا خاتمہ ہوا۔ابتدائی دور کی دعوت میں دوباتوں پر خاص زور تھا۔ اول یہ کہ عورتیں شرک سے احتراز کریں ۔کیوں کہ خواتین کی اصلاح پر نسلوں کی اصلاح منحصر ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی نیت رکھے اور اس مقصدِ عظیم کو کسی بھی وقت فراموش نہ کرے ۔ 
اپنے ہاتھ سے کام :    اپنا کام حتیٰ المقدور اپنے ہاتھ سے انجام دیتے اور جب کسی اجتماعی کام کا موقع ہوتا تو سب سے پہلے کام میں بڑھ کر شرکت کرتے خصوصاً ایسے مشکل کام جن پر دوسروں کی توجہ کم ہوتی آپ انہیں آگے بڑھ کر خود انجام دینے لگتے اور باقی لوگ بھی متنبہ ہوکر وہ کام کرڈالتے۔
آپ کا گھر دعوت کا مرکز تھا جس میں کثرت سے خواتین اور دیگر کا آنا جانا رہتا۔ ایک بار تو اتنی مہمان خواتین کی اتنی کثرت ہوئی کہ آپ کئی روزگھر تشریف نہ لاسکے۔لہٰذا مہمانوں کے لیے الگ جگہ کی ضرورت پیش آئی۔ آپ نے ایک روز اکیلے ہی دوسری جگہ مکان کی تعمیر شروع کردی۔آپ کو دیکھ کر اور بہت سے لوگ بھی اس کام میں لگ گئے اور دو ماہ کی مشقت سے ایک کچا مکان تیار ہوگیا ۔ آپ اپنے آبائی گھر کو مہمان خانہ بنا کر اہلِ خانہ کے ہمراہ اس کچے گھر میں آگئے ۔ ایک روزرات گئے مہمان آگئے ۔کھانا تیار کرنے کے لیے پانی موجود نہ تھا۔ باورچی نے پانی کے لیے کہا۔ لوگوں نے سنا اور سن کر سمجھا کہ کوئی دوسرا یہ کام کرلے گا۔ اسی اثنا میں سید صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ خود پانی بھر لائے۔ ایک روز ایک بارش میں برج کا ایک حصہ گرگیااور باقی بھی گرنے والا تھا، جس میں دو آدمی دب گئے ۔ سید صاحب کلندلے کر فوراً ملبہ ہٹانے میں لگ گئے ۔لوگوں کے منع کرنے باوجود آپ اس کام میں لگے رہے اور بالآخر ایک کو زندہ نکال لیا۔ ایک بار غلہ باہر پڑا تھا کہ بارش آگئی۔ آپ نے بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر غلہ ڈھویا۔ ایک بار ایک ساتھی کو چکی پیستے دیکھا تو بلا تکلف بیٹھ کر بہت دیر چکی پیستے رہے۔ پنجتار میں مسجد کی توسیع مقصود تھی۔ تمام غازیوں سے کہا کہ ہر ایک پانچ پانچ پتھر اٹھا کر لائے۔ آپ خود بھی پتھر اٹھا کر لائے اور منع کرنے والوں سے کہا مجھے اس کارِ خیر سے کیوں روکتے ہو ۔(جاری ہے)

اجتماع میں منظور شدہ قراردادیں
تحریکِ اسلامی کراچی کا یہ اجتماعِ عام دہشت گردی کے جملہ واقعات اور خصوصاً پشاور سانحے کی شدید مذمت کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اصل قاتلوں کوجلد از جلدگرفتارکرکے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔بے گناہ عوام کا قتل خواہ کسی صورت میںاورخواہ کسی جانب سے ہوناقابلِ قبول ہے۔
یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فوری طور پرعلیحدگی اختیار کی جائے ۔ قبائلی علاقوں کے بے گھرہونے والے افراد کی فوری بحالی کا انتظام کیا جائے اور انہیں جلد از جلد ان کے گھروں میں آباد کیا جائے ۔
یہ اجتماع سزائے موت بحال کرنے کے حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ یہ سزا غیر مشروط طور پرتمام مجرموں کے لیے بحال کی جائے ۔
٢۔    یہ اجتماع حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ملک میں سودی نظام کو جلد از جلد ختم کرکے اسلامی نظامِ معیشت رائج کیا جائے ۔
٣۔    ملک میں عوام مہنگائی، بے امنی اور بے روزگاری کے ہاتھوں بری طرح ستائے گئے ہیں۔ عام آدمی کے لیے بجلی اور گیس کے بل تک ادا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ یہ اجتماع مطالبہ کرتا ہے کہ حکومت عوام کو سہولت مہیا کرنے کی فوری اورہر ممکن کوشش کرے ۔
روداد اجتماعِ عام تحریکِ اسلامی کراچی

شر سے خیر برآمد ہونا قدیم محاورہ ہے جس کی صداقت کا ایک تجربہ حال ہی میں اس وقت ہوا جب تحریکِ اسلامی کراچی کا روایتی سالانہ اجتماعِ عام،جو اس سال بعنوان''پاکستان میں تبدیلی اور انقلابِ نبوی'' اتوار،٣٠ نومبر، ٢٠١٤؁ء کوفاران کلب ، گلشنِ اقبال میں طے تھا، وہ اچانک دسمبر کی ابتدائی تاریخوں میں فاران کلب سے نزدیک ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والی دفاعی نمائش کے سبب انتظامیہ کی جانب سے اس علاقے میں اجتماعات پرپابندی عائد ہونے کے باعث ملتوی کرنا پڑا۔عین اجتماع کی تاریخ نزدیک آنے کے بعد جب تمام تیاریاںتقریباً مکمل تھیںاور دعوتی کام اپنے عروج پر تھا ،یہ فیصلہ قدرتی طور پر بہت شاق گزرا۔تاہم مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ کہہ کر دل کو تسلی دی اور آئندہ کے بارے میں غور وفکر شروع ہوگیا۔''نشور''کا گزشتہ شمارہ جس میں ٣٠ نومبر کے اجتماع کا شتہار شائع ہوا تھا،ترسیل کے لیے تیار تھا۔ فوری طور پر نشور کے ساتھ تصحیح کا پرچہ منسلک کیا گیا جس میں اجتماع کے التوا کا اعلان و معذرت تھی۔جن جن مقامات پرسابقہ تاریخِ اجتماع کا اعلان ہوچکا تھا، ہینڈ بل تقسیم ہوئے تھے انفرادی ملاقاتوں میں دعوت دی گئی تھی ، ان سب تک اجتماع کے التواء کی اطلاع پہنچانی تھی، سو یہ کام ہوا۔(اس کے باوجود بہت سے لوگ عدم اطلاع کے باعث ٣٠ نومبر کو فاران کلب پہنچ کر کوفت کا شکار ہوئے ، جن سے اس سطور کے ذریعے مزید معذت کی جارہی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا فاحسن الجزاء)
امیرِ کراچی محترم تسنیم احمد صاحب کا ذہن تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے امکانات اور تدابیر کے حوالے سے مختلف تجاویز کا گہوارہ بنا رہتا ہے۔ آپ کی تجویز پر غور و فکرکے بعدطے کیا گیا کہ''پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی راہیں '' کے زیرِ عنوان ایک مجلسِ مذاکرہ منعقد کی جائے ۔ جس میں اقامتِ دین کی داعی تینوں جماعتیں (جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی اور تحریکِ اسلامی )اس عنوان کے حوالے سے اپنے اپنے موقف کی اس طرح وضاحت کریں کہ آپس کے مشترکات اور اس سلسلے میں مستقبل کے امکانات پر زیادہ زور ہو تاکہ عوام الناس کے سامنے اتحاد و یگانگت کا پیٖغام جاسکے اور انہیں فریضہئ اقامتِ دین کی ادائی کے لیے ابھارا جاسکے۔
سید منور حسن صاحب، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی ، اس سے قبل
٢٠١٢؁ء میں تحریکِ اسلامی کے سالانہ اجتماع میں منعقدہ ایک مذاکرے میں شریک ہوچکے تھے۔ اپنی بزرگی اور تحریکی مقام کے لحاظ سے انہیں جماعتِ اسلامی کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
امیرِ تنظیم ِ اسلامی محترم عاکف سعید صاحب نے خوش دلی کے ساتھ اس اجتماع میں شرکت کی یقین دہانی کرائی جب کہ تحریکِ اسلامی کی نمائندہ محترم امیرِ تحریک حافظ سید زاہد حسین صاحب کے ذمے تھی۔
اس اجتماع کے لیے
٢١ دسمبر، ٢٠١٤؁ئ، اتوار کا دن اور تاریخ طے ہوئی ۔
ذہنوں پر چھائی پژمزدگی ،اب جوش و ولولے میں بدل گئی تھی۔ اس اجتماع کے شایانِ شان تیاری کرنے کے لیے تمام کارکنان اپنی اپنی سی کوششوںمیں مصروف ہوگئے ۔اجتماع کے انتظامات کے حوالے سے مختلف کمیٹیوں کی تشکیل پہلے ہی ہو چکی تھی اور دعوتی کام بھی جیسا کہ ذکر ہوا کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ تاہم اجتماع کی اس قدرے بدلی صورت کے حوالے سے کام کا جائزہ لے کر اس کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دی گئی ۔ محترم امیرِ تحریکِ اسلامی پاکستان ،جناب حافظ سید زاہد حسین صاحب کی مشفقانہ رہ نمائی ہر موقع پر کارکنان کو حاصل رہتی ہے۔ محترم امیرِ کراچی ، تسنیم احمد صاحب اس پور ی مہم کے نگراں کے طور پر قیم کراچی اور دیگر ذمے داران سے مستقل رابطے میں تھے ۔کوششیں بھی تھیں اور اس سے بڑھ کر رب العزت کے حضور تسبیح و مناجات اور دعائیں بھی جاری تھیں۔
اللَّھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا ، و اجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرتہ۔
''اے ہمارے رب ہمارے سارے معاملات کا انجام احسن کر دے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے''-
اسی دوران
١٦ دسمبر کا پشاور کا المناک سانحہ پیش آچکا تھا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں خونِ مسلم کی ارزانی کا ایک اور اندوہناک واقعہ۔ابلاغیاتی اداروں کی جانب سے رائے عامہ کودہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں صلیبی جنگ کے لیے مزید قربانیاں دینے پر آمادہ کرنے کام زور وشور سے جاری تھا۔ دہشت گردی کے اصل اسباب اور ان کے سدباب کی جانب متوجہ کرنے کے بجائے حسبِ معمول دینی اداروں اور دینی سوچ کو ہدفِ ملامت بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ عقل و خرد کی ہر بات رد کرکے مطالبہ صرف ایک تھاہر ایک ان کے ذہن سے سوچنا شروع کردے ورنہ مخالفت کی ہر آواز کو خواہ کتنی ہی دانش مندانہ اور دلسوز کیوں نہ ہو ، کچل کے رکھ دیا جائے ۔ دینی ادارے دفاعی مقام پرآگئے تھے۔ اجتماع کے حوالے سے خدشات ذہن میں جنم لے رہے تھے تاہم اللہ کی مدد پر بھروسا پہلے بھی تھااور اب بھی اسی کا آسرا تھا۔ خیال آیا کہ یہ اجتماع تو ایک اچھا موقع ہے اپنی بات مؤثر انداز میں منتقل کرنے کا۔لوگوں کے سامنے اسلام کا پیغام صحیح انداز میں واضح کرنے کا اور کرنے کے اصل کام کی طرف رہ نمائی کا،جس کے نتیجے میں آخرت میں سرخ روئی اور دنیا میں دہشت گردی ،بے امنی ، مہنگائی اور افراتفری کے ان ناسوروں سے نجات حاصل کی جاسکے ۔
پھر اجتماع کا دن آن پہنچا۔گویا امتحان کا دن تھا۔ زندگی خود ایک امتحان ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے ایسے کئی امتحانات آتے ہی رہتے ہیں جن سے ہمیں اپنی مجموعی تیاری کو جانچنے اور اس بڑے امتحان کی تیاری کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔
گزشتہ شام یہ خبر موصول ہوچکی تھی کہ موسمی خرابی کے باعث محترم عاکف سعید صاحب ، امیرِ تنظیمِ اسلامی کی پرواز ملتوی ہوتے ہوتے منسوخ ہوگئی ہے اور وہ اس اجتماع میں شریک نہیں ہوپائیں گے۔ ان سے گزارش کی گئی کہ وہ اپنے کسی معتمد رفیق کو اس کام پر مامور کردیں جو ان کی نمائندگی اس اجتماع میں کرسکے ۔لہٰذا محترم شجاع الدین شیخ صاحب نے اس اجتماع میں تنظیمِ اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے تنظیم کا موقف پیش کیا ۔
اجتماع گاہ علی الصبح کارکنوں سے آباد تھی۔ تزئین و آرائش کے ذمے داراپنے ساتھیوں کے ہم راہ بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ۔ مکتبہ تحریکِ اسلامی پرایک جانب'' نشور'' کا خوب صورت بینر آویزاں تھا۔اجتماع گاہ میں چاروں طرف مختلف آیاتِ قرآنی اور تحریکی لٹریچر سے مؤثراقتباسات کے بینرز اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔اجتماع میں خواتین کی شرکت کا بھی انتظام تھا۔
اجتماع کا وقت
١٠ بجے صبح تھااور اس سے قبل ہی لوگوں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔امیرِ کراچی تسنیم احمد صاحب پہنچ چکے تھے۔امیرِ تحریکِ اسلامی پاکستان حافظ سید زاہد حسین صاحب اورمحترم محمد جلیل خان صاحب قیم تحریک بھی تشریف لاچکے تھے۔ ۔ محترم جلیل خان صاحب کوا للہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ رکھے وہ اس پیرانہ سالی میں جواں ہمتی کی تصویر بنے ہمارے عزم و حوصلے کو مہمیز دینے کا کام دیتے ہیں ۔ دھن کے پکے اور لگن کے سچے ۔ ایسے لوگ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں ۔
محترم جناب سید منورحسن صاحب، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی پنڈال میںداخل ہورہے تھے۔اپنے بعض حالیہ افکار کی طرح منفرداور تنہا !چال سے باوقار سا اضمحلال ظاہر تھا۔ بڑھ کر استقبال کیا ۔حال احوال پوچھا۔ فرمانے لگے طبیعت نرم گرم رہتی ہے۔ دل سے ان کی صحت و عافیت کے لیے دعا نکلی ۔ اللہ تمام بزرگان و بیماران کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ۔
١٠ بجے کاروائی کا آغاز ہوا ۔راقم الحروف نے معزز مہمانانِ گرامی کو اسٹیج پر مدعو کیااورجملہ حاضرین کو خوش آمدید کہا۔اجتماع کا آغازتلاوتِ کلام مجید سے ہوا۔حافظ محمد کامران صاحب نے تلاوت و ترجمے کید سعاد ت حاصل کی ۔ اس کے بعدامیرِ تحریکِ اسلامی کراچی تسنیم احمد صاحب کودعوت دی گئی کہ وہ موضوع پر ابتدائی گفتگو فرمائیں۔جناب تسنیم احمد صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا ۔ اس دوران میں محترم عاکف سعید صاحب کے نمائندہئ خصوصی جناب شجاع الدین شیخ صاحب تشریف لاچکے تھے ۔ محترم امیرِ کراچی نے اپنی گفتگو کے دوران انہیںخوش آمدید کہا اور اسٹیج پر مدعو کیا۔آگے بڑھنے سے قبل ایک وضاحت کہ تقاریر نقل کرتے ہوئے حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ مقررین کے اصل الفاظ و بیان کو برقرار رکھائے تاہم بعض مقامات پرتکرار سے بچنے اور اختصار کی خاطرمفہوم تبدیل کیے بغیرالفاظ میں ردوبدل کیا گیا ہے ۔قیامِ پاکستان کے پس منظرمیں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے امیرِ کراچی نے فرمایا:
''مسلم لیگ نے قیامِ پاکستان کا نعرہ لگایا اور کہنے والے نے (اشارہ ہے سیّد مودودی ؒ کی جانب)برملا کہا کہ جس اندازسے اسلامی حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے مسلمانوں کی حکومت تو بن جائے گی ، مگر اسلامی حکومت نہیں بن سکے گی ۔ ایسی تو بہت ساری مسلمان حکومتیں موجود ہیں مجھے اگر ایک گز زمین کا ٹکڑا ایسا مل جائے جس پر اسلام نافذ ہوتو وہ میرے لیے اس پورے کرہ ارض سے زیادہ بہتر ہوگا۔پاکستان بن جانے کے بعد پرزور تحریک کے ذریعے اسلامی دستور حکم رانوں کے نہ چاہتے ہوئے نافذ ہوا۔ اس کے باوجود اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کی راہیں
٠ء علی گڑھ میں بیان کی گئی تھیں۔جس میں اصل کام مردانِ کار کی تیاری کا تھا۔ ایسے افراد جو ایک طرف قرآن و سنت کے عالم ہوں اور دوسری طرف دنیا کے جدید ترین علوم کے بھی ماہر ہوں ۔ بوجوہ یہ کام نہ ہوسکا۔ قیام ِ پاکستان کے وقت نہایت اخلاص کے ساتھ سوچا گیا کہ یہ نئی مملکت اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے لہٰذا اسی مقصد کو آگے بڑھایا جائے ،چہ عجب کہ اللہ ہماری مدد فرمائے اورپھر اسی نظریے کے تحت اسلامی دستور کے نفاذ کی مہم چلائی گئی اور حکم رانوں کی مخالفت کے باوجود اسے منظور کرایا گیا۔جمہوری سیاست میں حصہ لیا گیا۔ اس وقت یہ بات سوچی گئی کہ مسلمان اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں ان کے جذبات سے فائدہ اٹھایا جائے اور جمہوری طریقہ کار کے تحت اسلامی نظام کو نافذ کیا جائے۔یہ کام پورے اخلاص کے ساتھ کیا گیا مگر یہ کم و بیش ٦٠ سال کی پوری انتخابی اور سیاسی جدوجہد ہمارے سامنے ہے اور نتائج بھی کہ قیام اسلامی حکومت یا اقامتِ دین کی جانب کوئی معمولی سی بھی قابلِِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی!
آخرت کے انکاری اور کتاب سے ناآشنا بت پرست معاشرے اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ آخرت ، قرآن اور نبی کی سنت کو اعتقا داً حجت مانتے ہوں بڑا فرق ہے ، لاکھ شعوری اور نسلی مسلمان کی تعبیروں سے(دونوں کے درمیان فرق کے حوالے سے) اس معاشرے کو مکہ کے جاہلی معاشرے سے تشبیہ دی جائے مگر دونوں معاشروں میں احیائے دین اور غلبہ دین کا کام کرنے کے لیے تقاضے مختلف ہیں مانا کہ دعوت دین کے لیے مشترک اساسات بھی کم نہیں ہیں۔
گزشتہ
٦٠ سالوں میں اور خصوصا ١٩٧٠ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعددیگر طریقہ ہائے کار Strategies پر بھی سوچا جاتا رہا جن سے اقامتِ دین کا مقصد حاصل کیا جاسکے یا اسلامی تحریکات(Islamic Renaissance Movements)ایسے افراد کی تیاری میں کام یاب ہوجائیں جو اپنی اہلیت، علمیت ،اخلاص ، محنت ، امانت و دیانت اور بے لوث زہد وتقوے کے زور پرفطری طور پرمسلم معاشرے میں بغیر کسی خون ریزی ، جبر ، احتجاج ، مطالباتی مہمات اور انتخابات کے معاشرے کی قیادت حاصل کرلیں اور اس طرح غلبہ دین کے ساتھ اسلامی حکومت قائم ہوسکے ۔ یہ اچھی طرح جان لیا جائے کہ غلبہ دین ایک ہمہ گیر چیز ہے ۔ اسلامی حکومت اُس کا محض ایک جزہے، بے شمار غلط فہمیاں جز کو کل سمجھنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ جو لوگ منہج نبوی کو اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بڑی مبارک بات کرتے ہیں ، انہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح سنت نبوی ﷺ کے نام پر اونٹ گھوڑے اور گدھے اب سواری کے طور پر استعمال کے لیے لازم نہیں کیے جا سکتے اُسی طرح نبی ﷺنے ، کتاب اور آخرت سے نا آشنا مشرک معاشرے میں وحی الہٰی کی رہ نمائی میں اسلامی حکومت تک پہنچنے کے لیے جوراستہ اختیار کیا وہ راستہ بعینہ ایک مسلم معاشرے میں احیائے دین کے لیے مناسب حال شکل میں اختیار کرنا ہوگا بالکل اُسی طرح جس طرح ہم اونٹ گھوڑے اور گدھے کی جگہ مناسبِ حال سواری استعمال کرتے ہیں۔
معاشرے میں انقلاب لانے کے مختلف عوامل اور طریقہ کار ہیں ۔ ایران میں انقلاب آیا۔ مصر، بنگلہ دیش۔ان سب میں اسلامیان نے پیش قدمی کی لیکن انہیں اپنی بعض کم زوریوں کے باعث پیچھے ہٹنا پڑا۔ ترکی میں بھی کچھ نہ کچھ کام ہوا۔ پاکستان میں بڑی پیش قدمی اسلامی دستور ہے۔یہاں کمیونز م کا راستہ روکاگیا۔یہاں مختلف دینی طبقات نے بہت کام کیا لیکن اسلامیان (غلبہ اسلام کے داعی) بہت سے کام جو کر سکتے تھے نہ کرپائے ، مگر اللہ نے یہ کام بعض دوسروں سے لے لیا۔ خواتین یونیورسٹی کا قیام، اسلامی بینکاری وغیرہ ایسے کام ہیں جو فکرِ مودودی کے حامل لوگوں نے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں نے انجام دیے۔
ہمیں غلبہ دین کے لیے مساجد کو اپنا مرکز بنانا ہوگا۔ اُن کی تعمیر اور آبادکاری کو فرضِ اولین جاننا ہو گا، اُن کی تنظیم کرنی ہوگی ، دفاتر اور سیمینار اور شادی ہالوں کے مقابلے میں مساجد کو اپنے پروگراموں کامرکز بنانا ہو گا۔فکرِ مودودی کی حامل تینوں جماعتوں کو چاہیے کہ مشترکہ ورکنگ گروپس اورکمیٹیاں بنائیں جو باطل کی پیش قدمی کا جائزہ لیتی رہیں۔عدلیہ ، انتظامیہ ، مقننہ اورایجنسیز کی گم راہی کے لیے اگر امریکا اور باطل قوتیں اپنا سارا زور صرف کردیں تو ہم کیوں ان اداروں سے متعلق اپنے مسلم بھائیوںکی ہدایت و رہ نمائی کے لیے پیچھے رہیں ۔مسلم معاشرے کے تمام شعبوں میں اپنی دعوت کے نفوذ کا اہتمام کرنا ہوگا ۔اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہو گی ۔ انہیں دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے قابل بنایا جائےکہ وہ جاہلیت کا ہر ہر محاذ پر مقابلہ کر سکیں۔فکرِ مودودی کے حامل غلبہ دین کی علم بردار تحریکوں کو مل جل کر اپنے ادارے، اسکول و یونی ورسٹیاں، اپنے بینک، اپنی مائکرو فائننس کمپنیاں ، اپنے ہسپتال ، میڈیکل کیئرنیٹ ورک بنانے ہوں گے۔الغرض ہمیں اپنے حال کو دیکھنا ، اپنی تربیت پر توجہ دینی ، اپنی اصلاح، اپنی تنظیم اور اپنی افرادی اور وسائلی طاقت کی تنظیم کرنی ہوگی۔ ہمیں اب باہر سے زیادہ(
extrovert) ہونے کے بجائے اُن کی طرف دیکھنا ہو گا جو ہم میں شامل ہو چکے ہیں۔(introvert) ہونا ہو گا) ۔یہ سب اس لیے کہ غلبہ دین محض پارلیمنٹ کا نام نہیں۔ یہ پورے معاشرے کو قرآن کی جانب پلٹا دینے کا نام ہے، پوری عدلیہ ، پوری فوج ، پوری بیوروکریسی ، پورا میڈیا قرآن کے تابع ہونا چاہیے ، آئیے! اسلام کی طرف پیش قدمی کریں ۔ ہمہ گیر دین کی طرف ایک اسلامی معاشرے کی طرف کہ جب کوئی اس کے قریب آئے تواُس کا لمس ، اُس کی نرماہٹ و گداز ، اُس کی خوش بوکومحسوس کر سکے اور پھر ساری دنیا میں یدخلون فی دین اللہ افواجاکا منظر نظر آئے گا، اے کاش نظر آجائے!!!
اس فکر انگیز گفتگو نے بعض سوالات ذہن میں اٹھائے اور کچھ امکانات کی نشان دہی بھی کی۔
اس کے بعد محترم شجاع الدین شیخ صاحب کو امیرِ تنظٰیم ِ اسلامی کے نمائندہ کے طور پر دعوت دی گئی ۔ محترم شجاع الدین شیخ صاحب نوجوان و باکمال عالم اوربے باک و پرجوش مقرر ہیں۔ آپ کے دروس لوگوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں خصوصاً ہر سال رمضان المبارک میں آپ کادورہئ ترجمہ قرآن کثیر تعداد میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ماشاء اللہ ۔آپ نے تحریکِ اسلامی کو اس اجتماع کے انعقاد پر مبارک باد دی اور دعا کی کہ اس اجتماع کے مقاصد بھی احسن طور پر حاصل ہوسکیں ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن ِ کریم کی تین آیاتِ مبارکہ تلاوت سے کیااور ان کے حوالے سے انہوں نے کہا :
''اقامتِ دین کا کام بھی دین کے دیگر احکامات کی طرح اسوہئ رسول کی روشنی میں ہی کیا جانا ہے۔ہمارے ہاں جذبے کی الحمدللہ کمی نہیں ۔ ضرورت اس نبوی طریقہئ کار کو سمجھنے کی ہے جس کے تحت یہ کام رسول اکرم
ﷺنے فرمایا۔اس سلسلے میں انہوں نے بانیِ تنظٰیمِ اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد lکی معروف کتاب ''منہجِ انقلاب نبوی ﷺ''کے حوالے سے چھ انقلابی مراحل کا تذکرہ فرمایا جن میں :
١۔    اولین دعوت ہے ۔ عمر بن خطابؓ، خالدبن ولیدؓاور دیگر صحابہ کرامcکسی نرسری میں تیار نہیں ہوئے ۔ وہ اسی معاشرے کا ایک حصہ تھے ۔ ان کے دل میں ایمان پیدا کیا گیا جس نے انہیں تبدیل کیا۔ یہ کام دعوت کے نتیجے میں ہوگا۔ قرآن ِ کریم کے ذریعے توحید کی دعوت کی دی جائے۔
٢۔    دوسرا مرحلہ دعوت قبول کرنے والوں کی تنظیم کا ہے۔
٣۔    تیسرا مرحلہ تربیت کا ہے۔ اللہ والے جن کا مقصود آخرت کی کام یابی ہے انہیں تیار کیا جائے۔
٤۔    چوتھا مرحلہ صبر کے مستقل مراحل کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنا ہے۔ یہ کام مکہ کے ١٣ برس میں ہوا۔
٥۔    اس کے بعد اقدام کا مرحلہ جو نبوی منہج میں وحی کے ،مطابق ہو ا لیکن اب اس کے لیے مشورہ ہوگااور
٦۔    آخری مرحلہ قتال کا آسکتا ہے۔
عوام الناس میں اسلامی حکومت کے قیام کے حوالے سے تین طرح کے رجحانات ہیں۔
ایک بالکل سادہ اور عام مسلمان پریشان ہوتا ہے کہ جب سب(دینی جماعتوں)کی منزل ایک ہے تو سب جمع کیوں نہیں ہوجاتے۔دوسرے وہ مخلص تحریکی کارکن ہیں جو سمجھ نہیں پاتے کہ اختلاف کس چیز میں ہے۔تیسرے میں وہ لوگ شامل ہیں جو اقامتِِ دین کی جدوجہد میں ابتداً شریک ہوئے اور بعد میں کسی وجہ سے اس کام سے الگ ہوئے تو اس کام کے ہی خلاف ہوگئے اور اس کی مخالفت شروع کردی۔
اس دوسرے گروہ کے حوالے سے عرض ہے کہ مسلکی جماعتوںکی ترجیح اسلامی حکومت نہیں۔مدارس اور ان کے حلقے ہیں ۔ ان کی اپنی اہمیت ہے مگر یہ اصل نہیں۔وہ سب بھی خیر کے کام ہیں ۔مگر اقامتِ دین کے حوالے سے ان کا رویہ اکثر اپنی محدود مقاصد کے حصول کا ہوتا ہے۔اقامتِ دین کے حوالے چند جماعتیں باقی رہتی ہیں ۔ جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی ، تحریکِ اسلامی ، تنظیم الاخوان، حزب التحریر وغیرہ۔طالبان کی بات آگے آئے گی۔بعض لوگ تبلیغی جماعت کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ ان سب میں فرق ہے ۔ان کے کام کے حوالے سے پانچ طریقہ کار سامنے آتے ہیں ۔
١۔    دعوت کا منہج(تبلیغی جماعت)۔ ٢۔    نصرت کا منہج(حزب التحریر)۔
٣۔    نتخابات کا منہج(جماعتِ اسلامی، تحریکِ اسلامی)۔٤۔    قتال کا منہج(طالبان)۔
٥۔    تحریکی منہج(تنظیمِ اسلامی)
دعوت کا منہج کہ صرف دعوت اور دعوت کے ذریعے اسلامی حکومت آجائے گی تو اسوہ رسول میں تو ہمیں قتال بھی ملتا ہے، تنظیم بھی ملتا ہے ، تربیت بھی ہے۔ صرف دعوت کی بنیاد پر تو کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی ۔
نصرت کا منہج یعنی کہ ہر ملک میں جولوگ اقتدار و اختیار کے مالک ہیں انہیں تبدیل کیا جائے اور اس کے نیتجے میں انقلاب آجائے ۔اس میں کئی کم زوریاں ہیں۔یہ لوگ اگر تبدیل ہوبھی گئے تو ضروری نہیں کہ یہ آپ کو ہی اقتدار میں لائیں۔پاکستان فوج کی مثال لی جائے تو جو کچھ اس کے معاملات رہے ہیں ان سے نصرت کی امید ایک سوالیہ نشان ہے۔
تیسرا انتخابی طریقہ ہے۔
٦٨ سال سے اس پر کام ہورہا ہے۔ مشرف دور میں ایم ایم اے کی شکل میں دینی جماعتوں کو وہ کچھ ملا جو زیادہ سے زیادہ مل سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود مشرف دور بدترین اقدامات سے بھرا ہوا ہے۔سید مودودیؒ نے آخری وقت میں انتخابی سیاست کے حوالے سے اپنی رائے تبدیل کرلی تھی(یہ بات بعض حلقوں کی جانب سے کہی جاتی ہے لیکن سید مودودیl کی جانب سے اعلانیہ اس موقف سے رجوع کہیں ثابت نہیں ، اس کے برعکس ن کے آخری دور کی تحاریر اور انٹرویو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ آخر تک اپنے مشہور موقف سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ مرتب) ۔جن ممالک میں اس کے ذریعے اقتدار حاصل بھی کیا گیا وہاں بھی کوئی حقیقی تبدیلی اس انتخابی سیاست کی بنیاد پر نہ آسکی ۔
چوتھا منہج قتال کا ہے۔ قرآن کریم جس کی تاکید سے بھرا پڑاہے۔خالص شرعی بنیادوں پر قتال فی سبیل اللہ کی جدوجہد صرف طالبان افغانستان کررہے ہیں۔پاکستان میں اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کام کررہی ہے( لیکن)اصلاً ان کی تحریک نفاذِ اسلام کے لیے نہیں، معصوم و بے گناہ بچوں اور بڑوں کی شہادت کے انتقام کے لیے وجود میں آئی اور بعد میں پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطابلہ سامنے آیا۔ قتال فی سبیل اللہ کی اہمیت و فرضیت پر سوال نہیں ۔ لیکن جیسے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ جیسی عبادات کچھ مخصوص حالات اور اوقات کی پابند ہیں اسی طرح قتال کا بھی معاملہ ہے۔ مسئلہ خروج فقہ کا معروف مسئلہ ہے۔ افغان طالبان کفار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔جب کہ پاکستان میں مدمقابل مسلمان ہیں ۔کسی فرد یا گروہ کی تکفیر اہلِ علم کا کام ہے ۔دوسرے یہ کہ عوام الناس کی اس حوالے سے کیا تیاری ہے۔تو کیا یہ طریقہ کار ممکن العمل ہے؟ بظاہر محسوس نہیں ہوتا۔ کہیں شرائط پوری ہوتی ہوں تو یہ ممکن بھی ہوسکتا ہے۔
پانچواں منہج تحریک کا ہے۔ دعوت کا کام کیا جائے۔ جو مراحل پہلے بیان ہوئے ان پر عمل کیا جائے۔پریشر گروپ بنایا جائے ۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اپریل
٢٠١٠؁ء میں جامعہ اشرفیہ میں ڈھائی سو دیوبندی علماء کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے اتفاق رائے سے فتویٰ دیا کہ اس پاکستان میں بلٹ اوربیلٹ کے ذریعے اسلام نہیں آسکتااس کام کے لیے ایک پرامن مطالباتی تحریک برپا کرنا چاہیے۔اس سے پہلے قراردادِ مقاصد کے لیے علماء کی جانب سے مطالباتی تحریک چلائی گئی۔ ختمِ نبوت کے حوالے سے ایک عوامی تحریک چلائی گئی قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا۔ تحفظ ِ ناموسِ رسالت کی تحریک چلائی گئی۔اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی و دنیاوی مقاصد کے لیے کامیاب تحریکیں چلائی گئیں۔یہی طریقہ اسلامی حکومت کے قیام کا واحد ممکنہ طریقہ ہے''۔
محترم شجاع الدین شیخ صاحب نے اپنے مخصوص جاندار اور پراثرانداز میں تنظیمِ اسلامی کا دیرینہ موقف پیش کیا تھا۔شیخ صاحب کی تقریر کے بعد میں دیر تک ا ن کی گفتگو اور اجتماع کے مقصد (اقامت دین کی داعی جماعتوں کے مشترکات اور باہمی تعاون میں اضافے کے امکانات )میں ربط تلاش کرنے میں کوشاں رہا ۔
اب محترم سید منور حسن صاحب کو دعوتِ خطاب دی جارہی تھی۔جماعتِ اسلامی کی موجودہ صورت کے معماروں میں سے ایک۔ جن کی ذات دعوت ، تنظیم اور جدوجہد کا استعارہ ہے۔ میں نے کوشش کی کہ سنبھل کر بیٹھ جاؤں۔ سیدمنور حسن صاحب کی تقریر اپنے اندر ایک خاص نوع کی کشش رکھتی ہے جو سامعین کو متوجہ رکھتی ہے اور جب سے ان کے بعض حالیہ بیانات کا معاملہ ہوا ہے'' لوگوں'' کی ''توجہ'' میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کہ''دیکھیں اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے !''۔سید صاحب فرمارہے تھے:
آج کا موضوع ایک بہت ہی زندہ و تابندہ موضوع ہے ۔اس پر غور و فکر جاری رہتا ہے۔ یہ سوال موجود ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور گروہوں کی موجودی کے باوجود اسلامی حکومت کے قیام کی امید کے دیے کیوںٹمٹمانے لگے ہیں۔عمرکے ساتھ بھی یہ چیز ہوتی ہے اور جدوجہد کے اندرآدمی ڈھلان پر چل پڑے توبھی یہ صورت نظر آتی ہے۔جن مناہج کی بات ہوئی وہ سب اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن نتائج کے حوالے سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
انتخابی سیاست کے نتائج سب کے سامنے ہیں لیکن اس پر اتفاق ہے کہ جمہوری عمل معاشرے کوزندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے ورنہ محرومیوں کی داستان طویل سے طویل ہوجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو جمہوریت رائج ہے کیا وہ واقعی وہی
Textbookجمہوریت ہے جس کی بات کی جاتی ہے؟ان سوالات پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اسلامی حکومت کے حوالے سے کئی عشروں کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ یہ کسی مقام پر اچانک نمودار ہونے والی چیز نہیں ہے۔ہر مقام پر لوگ اپنے حالات سے سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔اسلامی تحریکوں کا ماڈل ہر جگہ الگ الگ ہوگا۔ بنیاد قرآن و سنت ہوگی۔
امریکا پوری دنیا کا امام قرارپایا ہے۔ سب اسی کے تابع ہیں۔لیکن افغا نستان میں اس کے ساتھ کیا ہوا ۔
١٢ سال کی جنگ کا حاصل کیا ہے۔ عملاً یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ امریکا اور نیٹو کی بصیرت کا قبرستان افغانستان بنا ہے۔ امریکا کی دوراندیشی اور دوربینی کا قبرستان افغانستان بنا ہے۔قتال بھی ایک منہج ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کی شرائط ہیںاور یہ جو پچھلا تجربہ ناکام ہوا ہے وہ شرائط کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کے بارے میںجو سوالات ہیں ان کے تشفی بخش جوابات درکار ہیںجن کے جوابات اتنی چھوٹی مجلس نہیں دے سکتی ۔ لیکن ان مجلسوں کا انعقاد بہت ضروری ہے۔تبلیغی جماعت کے بھائیوں سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے کہ جس طرح سے دعوت و تبلیغ آپؐ کی سنت ہے۔ اسی طرح اقامتِ دین بھی ہے۔لیکن یہ بات ہم ان تک پہنچا نہیں سکے۔لیکن اگر دیوبندی علماء اگر یہ بیڑا اٹھائیں (تو یہ کام ممکن ہے)۔پاکستان میں اسلامی ریاست تک پہنچنے کی جو رکاوٹیں ہیں اس میں دینی لوگ خود ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مسلکی حوالے سے جو جماعتیں ہیں اس صورتِ حال کے تبدیل ہونے کا بھی بیڑا اٹھانا چاہیے ۔اگر یہ لوگ تیار ہوجائیں تو بہت بڑی تعداد میں مخلصین مہیا ہوسکتے ہیں۔تبلیغی جماعت کو تیار کیے بغیر اسلامی حکومت کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اہلَ حدیث حضرات میں تبدیلی کا منہج پہلے سے موجود ہے ۔بریلوی مکتبہئ فکر کے ساتھ بھی رابطے قابلِ توجہ چیز ہیں۔
عالمی سطح پر موجود منظر نامے سے قربت پیدا کیے بغیر اسلامی تحریکیں اپنے لائحہئ عمل اور ترجیحات کا تعین نہیںکرسکتی ہیں ۔اسرائیل کے قیام کے بعد سے امت ِ مسلمہ کے خلاف مختلف عنوانوں سے جنگ جاری ہے۔مغربی دنیا ہمیں تشدد کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے۔اسلامی تحریکوں کو خوف زدہ اور مشتعل کرنے کی حکمت ِ عملی اختیار کی جارہی ہے جس کا مظاہرہ مصر اور بنگلہ دیش میں کیا جاچکا ہے لیکن اسلامی تحریکیں ان مسائل پر قابو پارہی ہیں۔ہمارا راستہ تشدد کا راستہ نہیں۔ نبی اکرم ساری زندگی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کی دعا مانگتے رہے۔اس کلچر سے ضرور رغبت ہونی چاہیے۔اس حوالے کو بہت مضبوط ہونا چاہیے۔اللہ کی رضا اس کی جنت کے لیے ان رویوں کو ہمیں اپنے اندر پروان چڑھتے دیکھنا چاہیے ۔موجودہ گنجلگ صورتِ حال میں اسلامی قوتوں کا باہمی رابطہ بہت ضروری ہے۔ہمارا موقف ایک ہے۔ باہمی اجنبیت اور دوری کو دور ہونا چاہیے۔میں تحریکِ اسلامی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے بروقت اور برمحل اس اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔اس سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔
مقتدر طبقات کوامریکا سے خوف کی نفسیات پر قابو پانا ہوگا کیوں کہ امریکا خود زوال پزیر ہے اور اس کی حکمتِ عملی ساری دنیا میں ناکام ہوئی ہے۔امریکا ایک ملک نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ اس تہذیب نے خود کو ٖغالب کیا ہے۔لیکن یہ تہذیب غلبے کے باوجوداپنے دعووں کو پورا نہیں کرسکی۔ غربت، نانصافی ، تعصب، جہالت پر قابو نہ پایا جاسکا۔ لیکن تہذیبوں کی ناکامی کے بعد ان کی جگہ کوئی دوسری تہذیب لیتی ہے۔ مغرب کے زوال میں اسلامی ریاست کا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان کے تناظر میں ناگزیر ہے کہ ہم ایسے لوگ جو لوگ اتفاق رائے رکھتے ہیں ، انہیں یکجا ہونا چاہیے۔ یکجا کا مطلب انضمام نہیں۔پہلے مرحلے میں ناگزیر ہے کہ ایک موقف رکھنے والے باہمی اپنائیت پیدا کریں اور پھر تبلیغی بھائیوں سے بھی رابطہ ہونا چاہیے۔میں آج کی کوشش کے حق میں دعائے خیر بھی کرتا ہوں اور مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں''۔
محترم سید منور حسن کی بصیرت افروز گفتگو میںشاید موضوع سے ہٹ کر بھی بہت کچھ تھا۔تاہم ان کے اٹھائے ہوئے نکات غور و فکر کے متقاضی تھے ۔
اب چائے کا وقفہ تھاجس میں چائے کے ساتھ کچھ ''وائے '' بھی مہیا کیا جارہا تھا۔گزشتہ کچھ عرصے سے یہ'' بدعتِ حسنہ'' تحریکی اجتماعات میں رواج پاتی جارہی ہے۔
مکتبے کے اسٹال پر رعایتی قیمت پر تحریکی لٹریچر دستیا ب تھا۔ اس اجتماع کے موقع پر نشور کی سالانہ خریداری میں نصف کی رعایت کا اعلان کیا گیا تھا۔تحریکی ڈائری بھی رعایتی قیمت پر مہیا کی جارہی تھی۔ وقفہ مختصر دورانیے کا تھا۔چند ہی لوگوں سے ملاقات ہوسکی تھی کہ اجتماع دوبارہ شروع ہونے کا اعلان ہوگیا۔وقفے کے بعد عبدالنافع نے ایک نظم پیش کی۔
اور اب محترم امیرِ تحریکِ اسلامی ، حافظ سید زاہد حسین صاحب خطاب کرنے تشریف لارہے تھے۔'ایک پرجوش مقرر جو دلوں کو ایمان ویقین سے لبریز کردے۔'یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم '' کی تصویر! جن کی قیادت میںکام کرنے والے تمام کارکنان خود کو ایک کنبے کا فرد تصور کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کی قیادت کی گراں بار ذمے داری مسلسل تیسری بار آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔
حمدوثنا ء کے بعد مہمانانِ گرامی قدر،مقررین و سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
''(اس عنوان کے حوالے سے بات یہ ہے کہ) زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے جدوجہد کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ یہ ذمے داری صرف پاکستان کی حد تک نہیں اور منور حسن صاحب نے ایک موقع پر ایک بڑا قیمتی جملہ کہا تھاکہ'' تحریکی کارکن کا ذہن عالمی اور کام مقامی ہونا چاہیے''۔جس مقام پر ہمیں کام کرناہے اس کی فکر ہمیں سب سے زیادہ ہونی چاہیے ۔اپنے مقام ، پاکستان سے ہمارے کام کا آغاز ہوتا ہے ۔ہمارے عنوان کے دوسرے جزو، ''اسلامی حکموت کے قیام کی راہیں'' کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ کسی مخصوص فرد ، گروہ یا جماعت کے اقتدار کی بات نہیں بلکہ نظریے یعنی اسلام کی حکومت کی بات ہے۔اسلامی نظام کے قیام کا ہدف و تمنا رکھنے والے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ انقلاب کس کے ہاتھوں برپا ہوتا ہے یا اس کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے۔اسے فکر صرف اتنی ہونی چاہیے کہ وہ اپنا کام کماحقہ کرگیاہو۔ کوئی جماعت یا کوئی اتحادیہ کام کر گزرے ، ہمارے لیے یکساں ہے۔ اللہ کے دین کو اس سرزمین پر قائم و نافذ کرنا والا ہر گروہ اور جماعت ہماراہی کام کررہا ہے۔اسی فکر کو ہمیں اپنی فکر بنانا اور لوگوں میں عام کرنا ہے۔اس کام کو کرنے کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے اپنے کام کو واضح کرنا، اسلامی نظام کے قیا م کی پیاس پیدا کرنا، معاشرے کو تیار کرنا، یہ کام کیے جائیں۔اسلامی معاشرے میں حکم ران کے انتخاب کا معاملہ دوسراہے۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ ہی موجود نہ ہو وہاں معاملہ دوسرا ہوگا۔ اسلامی نظام آمرانہ یا جبری حکومت نہیں جو لوگو ں پر جبراً مسلط کردی جائے یا مسلط رکھی جائے ۔ اسلامی نظام کی ضرورت کے حوالے سے عام طور پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ دیگر نظام عام طور پر ناکام ہوچکے ہیں ، اسلامی نظام مسائل کا حل ہے ،فلاحی نظام کا قیام، ملک میں ظلم ، جبر، اخلاقی گراوٹ، امن و استحکام اور دیگر دنیاوی مسائل کے حل کے لیے اسلامی نظام کو قائم کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ایمان و عمل صالح مومن کو دنیا میں بھی نفع پہنچاتے ہیں ۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ایمان و عمل صالح کے نتائج کے طور پر ان نتائج کی بات کی گئی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان تمام مقامات پر یہ دنیاوی فلاح و کامرانی کے وعدے ، محرک کے طور پر نہیں بلکہ نتیجے کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ یعنی دنیا میں اقامتِ دین کی جدوجہد کی بنیاد صرف اور صرف ہمارے ایمان میںہے۔تمام انبیاء کی دعوت''اللہ کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب'' کی تھی۔بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمیں یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی بارگاہ میںتمہارا کوئی عمل وقعت حاصل نہیں کرتا جب تک تم اس بنیادی ذمے داری کو ادا نہ کرو۔ جس طرح نماز قائم کرنا اقیموالصلوٰۃ ہے اسی طرح اقیموالدین کی فکر کو لوگوں میں عام کیا جائے۔آج اگر طاغوت کاصحیح تصور لوگوں میں عام ہوجائے تو ہمارے راستے کی بہت سی رکاوٹیں خود بخود دور ہوجائیں۔ہمارے کام کا سب سے پہلا حصہ اس معاشرے کو اسلام کے لیے تیار کرنا ہے کہ اقامت دین فرد کی ذمے داری ہے۔اسلامی حکومت کے قیام کے حوالے سے اولین کام نظریہئ اسلام پر یقین واعتمادپیدا ہے۔ تحریکی کارکنوں میں بعض اوقات اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔دوسرا کام نظریاتی قیادت ہے۔ لوگوں میں عدم توازن نہ پیدا ہو کہ کسی ایک پر اکتفاء کرجائیں۔ نظریہ اور شخصیت دونوں کی ہمیں ضرورت ہے۔آج قیادت کا فقدا ن ہمیں محسوس ہوتا ہے۔قیادتوں کی ذمے داری بہت بڑی ہے۔ انہیں نظریاتی کارکن تیار کرنے ہیں۔خارج کے ساتھ کام کا یہ داخلی پہلو بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ایک ایسی مثالی اجتماعیت کا قیام جو اسلام کی نشأۃ اولیٰ کی یاد تازہ کرے ۔ اس اجتماعیت میں اسلام مغلوب نہ ہو۔ مکہ میں اسلامی ریاست قائم نہ تھی، لیکن مکے میںکوئی حکم ایسا نہ تھا جو نازل ہواہو اور جس پر عمل نہ ہواہو۔ اقامتِ دین کی جماعتوں کو واقعی ایسا ہونا چاہیے ۔ ان کے کارکنوں کا قیادت پر اور قیادت کا کارکنوں پر اس درجے کا اعتمادہو کہ ہر کارکن تنظیم کا نمائندہ قرار پائے۔ یہ تنظیم اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجہد کرے جو ہم پر حاوی ہے۔ آج بھی اور جب بھی اسلامی انقلاب کی جدوجہد کی جائے گی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کی جائیں گی ۔ایک بڑی غلطی جو ہم سے ہوجاتی ہے وہ یہ کہ معاشرے کو تبدیل کیے بغیر اسلامی حکومت کے قیام کی توقع کی جائے۔ دوسری بات یہ کہ اجتماعیت میں وسعت کی خاطر اجتماعیت کے معیار پر سمجھوتا کر لیا جائے ۔ تطہیرِ افکار، تعمیرِ سیرت، تنظیم اور اصلاحِ معاشرہ و تبدیلی قیادت ہی کام کی فطری ترتیب ہے۔بات مکمل کرنے کے لیے اور جو گفتگو ہوئی اسے سمیٹنے کے لیے نہ کہ کسی منہج اور طریقے کو غلط یا ثابت کرنے کے لیے میں صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف طریقوں کی بات ہوئی۔ کسی طریعے کے سنت سے قریب ہونے کی بات یا شریعت میں اس کی گنجائش ہونے کی بات الگ ہے وہ الگ معاملہ ہے، لیکن جہاں تک کسی طریقے کی ناکامی کی بات ہے ، مثلاً انتخابی طریقے کی کی بات کی جائے کہ نفاذِ اسلام کے لیے یہ ناکام ہوچکا ہے تو اس پر بڑے غور و غوص کی ضرورت ہے۔ ملک میں یہی طریقہ رائج ہے۔ سید مودودی ؒ نے جو بنیادی اسکیم اس کے لیے اختیار کی تھی، جو مکمل اسکیم اس کے لیے رکھی گئی تھی،اس پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔معاشرے کو اس کام کے لیے پورے طور پر تیار ہی نہیں کیا جاسکا۔اس طریقے کی خامیاں اپنی جگہ ہیں لیکن اس طریقے کی ناکامی کا دعویٰ قبل از وقت ہوگا۔اس امت کی پہلی ریاست قتال کے بغیر قائم ہوئی۔ اپنی وسعت ، استحکام کے مراحل میں قتال کے مراحل سے گزرنا پڑا۔جب اپنی ذمے داری کے بنیادی کام کو صحیح طور پر انجام دیا گیا ، اللہ کی طرف سے اگلے مرحلے کی طرف رہ نمائی کردی گئی۔ آج بنیادی کام جو ہم سب مل کرسکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ کہ معاشرے کو اسلام کے لیے تیار کیا جائے ۔ اپنی اپنی اجتماعیتوں کو اسلام کے مطابق اس طرح مستحکم کرنا کہ واقعی وہ غلبہ ئ اسلام کے لیے کردار ادا کرسیکیںتو یقینا یہ ہمارے لیے آگے بڑھنے کا اور اللہ رب العزت کے حضور برأت کا سامان کرنے کاموجب ہوگا۔
؎ دیکھنا تقریر کی لذت اس نے جو کہا    میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں تھا!
محترم امیرِ تحریک موقع کی مناسبت سے عوام سے زیادہ قیادتوں سے مخاطب تھے۔کرنے کے سب سے اہم اور بنیادی اور حقیقتاً سب سے زیادہ فراموش شدہ کام ،طاغوت کے درست تعارف کو عام کرنے اور معاشرتی صف بندی کرنے کی طرف متوجہ کررہے تھے۔ انبیاء
Eجس کام کو کرتے رہے اوران ہی کی پیروی میں سید مودودیؒ نے جو کام ''قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں'' لکھ کر کیا۔دل سے دعا نکلی ؎تری آواز مکے مدینے !
آخر میں قاضی اختر حسین قریشی اور راقم الحروف نے دو قراردادیں پیش کی گئیں جن کی حاضرین نے منظوری دی۔دعا پر اس اجتماع کا خاتمہ ہوا۔حقیقتاً کئی اعتبار سے یہ اجتماع یادگار رہا۔تمام کارکنان و معاونین مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے دن رات اس اجتماع کی کام یابی کے لیے اور درحقیقت رب العزت کی بارگارہ میں اپنی مغفرت کے سامان کی خاطر محنت کی۔ برادر تنظیمات کے مہمانانِ گرامی بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے تحریک کی دعوت پر مثبت جواب دیا۔اللہ سب کے اخلاص کو قبول فرمائے،
کارکنان تحریک کے لیے مہم ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ آئندہ ان معیارات کو برقرار رکھنا اور ان میں مزید بہتری لانا یقیناً کارکنان کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے جس کے لیے ابھی سے کمرِ ہمت کس لینی چاہیے۔!
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کااتمام ابھی باقی ہے!

احساسات

پشاورکاسانحہ! دل کے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ کرگیا۔ یارب! اب تو یہ زخم ناسور بن چلے ہیں۔ اب تو چارہ گروں کوکچھ ہنروتدبیرِ مسیحائی عطاہو۔عجیب مریض کے وہ غریب چارہ گر جن کے اوزارِ مسیحائی میںشاید صرف ایک نشتر ہی بچا ہے۔ ہر مرض کا چارہ اسی کو سمجھتے ہیں اور گاہے مرہم بھی لگاتے ہیں تو اسی کی نوک سے!
پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ متحدو یک آواز رہی ہے۔ دہشت گردی کی مذمت کون نہیں کرتاہر کوئی اس کا فی الفور خاتمہ چاہتاہے اور اس بات کے حق میں ہے کہ دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔قوانین بھی موجود ہیں ، عدلیہ بھی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی۔ کمی شاید عزم کی ہے جو دہشت گردی کے حقیقی اسباب کی بیخ کنی کرنے کی بجائے''ناپسندیدہ عناصر''کا صفایا کرنے تک محدود رہاجاتا ہے۔ 
سانحہئ پشاور کی مذمت بجا، دہشت گردوں(یادہشت گردی؟)کے خاتمے کا عزم درست لیکن کیااس سوگ کو اشتعال میں بدلنے کی کوشش اور اس کی آڑ میں'' اسلامی جمہوریہ ''کو ''عوامی جمہوریہ''بنانے کی سازش کی جارہی ہے؟یاد رہے پاکستان ،مصر نہیں اور ترکی کا تجربہ بھی بالآخر سیکولرازم (درحقیقت سیکولر ازم کی داعی فوج)کی ہزیمت پر منتج ہوا ہے!
ملک آخر کار اس نہج پر آہی گیا جس پر لانے کے لیے مقتدرقوتیںگزشتہ کافی عرصے سے بے چین تھےں۔ دھرنوں کی کام یابی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ڈسے ہوئے سیاست دانوں کے ہاتھوں ہی ٢١ ویں ترمیم منظور کرائی گئی اور بھاری اکثریت رکھنے والی حکومت نے بالآخر ربرسٹیمپ کا کردار قبول کرہی لیا۔ ٢١ ویں ترمیم پر بہت کچھ کہا گیا اور کہا جارہا ہے لیکن مسئلہ اچھے اور برے دہشت گردوں کی تعریف یامذہبی اور سیکولر دہشت گردوں میں تفریق کا نہیں ، کسی کو غلط فہمی ہے تو جلد دور ہوجائے گی۔وہ دستور جس کے تقدس کی دہائیاں دی جاتی ہیں اور جس کی'' رِٹ'' قائم کرنے کے نام پراس آئین کے''باغی'' کا خون مباح ہوجاتا ہے،وہ دستور جس کی دی گئی چند ضمانتیں اس نظام میں شریک دینی قوتوں کا مبلغ سرمایہ ہیں۔وہ ضمانتیں جنہیں یہ دینی جماعتیں بروئے کارلانے کے لیے آج تک میدانِ عمل میں سرگرداںہیں۔٢١ ویں آئینی ترمیم کے بعد اسی دستور کی ''رِٹ''کا جنازہ نکالنے سے کہیں بڑھ کر اس کی روح قبض کرلی گئی ہے۔ آئندہ دینی قوتوںکے کام کا نقشہ کیا ہوگااس سوال کے جواب پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟
حق اور باطل کا معرکہ قدیم ضرور ہے مگرآج شایدیہ اتنا سادہ نہیں کہ عام آدمی بغیر کسی تردد کے اس معرکے کی نوعیت جان سکے اور اس میں اپنے مقام کا تعین کرسکے ۔دوفریقوں کی کشمکش میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں میں سے ایک لازماً حق پر ہو اور دوسرا باطل پر۔ یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ باطل کے مقابلے میں کھڑا ہونے والا دوسرابھی باطل ہی نکلتا ہے۔فرق شاید چھوٹی یا بڑی برائی کا ہو!
آج کی جنگ بارود سے کہیں بڑھ کر پروپیگنڈے سے جیتی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر کس کا قبضہ ہے یہ کوئی راز نہیں۔ آج سوات آپریشن کی بنیاد بننے والی ویڈیو کی حقیقت اس کے تمام کرداروں کے تعارف و مقاصد سمیت سامنے آچکی لیکن اسے کیا کہیے کہ آج بھی دھڑلے سے اس جعلی ویڈیوکو اصلی باور کراتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والے آپریشن کو وقت کی ضرورت اور'' ہماری جنگ''کی ایک پیش قدمی ثابت کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔''کوڑو ںکی شریعت'' نافذ کرنے کا الزام کلنک کا ٹیکا بن کر دینی قوتوں کے ماتھے پر آویزاں کردیاگیا ہے۔ 
آج پھر اعداد وشمار اور رائے شماری کے جائزے سامنے آرہے ہیں جس کے تحت تمام حکومتی اقدامات کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ان ہی جائزوں کی بنیاد پر ہراختلافی موقف کو خواہ وہ کیسی ہی نصیحت اور خیر خواہی کی بات مبنی کیوں نہ ہو، کچل ڈالنے کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔ ایسے ہی جائزوں میں جو ''جائز '' قسم کے دانشور وں کی جانب سے ہیںدہشت گردی کے تانے ''سیاسی اسلام'' سے جوڑے گئے ہیںاور اصلاح کی اصل اس فساد کی جڑ پر وار کرنا بتایا گیا ہے۔ 
ریل کے سفر کی اصطلاح میں یہ کانٹا بدلنے کا مرحلہ ہے! معاشرے کی سمت تبدیل کرنے کے اقدامات بہت پہلے سے شروع ہوچکے تھے ، ریاست کی سمت تبدیل کرنے کا مرحلہ شاید اب آیا ہے!
بحیثیت کارکنِ تحریک اسلامی حالات پر نظر رکھنا ہماری ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان اسباب کا تجزیہ ہے جن کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوئے ہیں ۔ اپنے حصے کا کام بروقت نہ کرنے کا نتیجہ آئندہ زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اپنے حصے کا کام ہمیں ہی سرانجام دینا ہے۔ مالک کے حضور سرخ روئی اور دنیا میں کامیابی کی واحد صورت اپنی ذمے داریوں کا شعور اور ان کی اخلاص کے ساتھ ادائی کی کوشش ہے۔ کتاب وسنت سے وابستگی اس کام کی بنیاد اور تعلق باللہ اس راستے کا زادِ راہ ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرانس میں توہین رسالت مآب  ﷺپر مبنی خاکوں کی حالیہ اشاعت اور اس حوالے سے ہونے والے واقعے میں کئی افراد کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال بہت سنگین ہے۔ بحیثیت مسلم یہ امر ہمارے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے کہ رسول اللہﷺکی شان میں ہمارے جیتے جی گستاخی کی جائے۔ امت کی زندگی اگررسول اللہﷺکی اطاعت میں ہے تو اس کی موت آپ ؐکی توہین برداشت کرنے میں ہے۔ اس معاملے کے فقہی پہلو سے قطع نظر اس سارے معاملے کے بہت سے پہلو غور طلب ہیں ۔
١۔     مغرب کی جانب سے توہین ِ رسالت ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ دیگرجنگی جرائم کے ساتھ ساتھ یہ جرم آزادیئ اظہار کے نام پر باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔ ریاستی سطح پر ہم اس کا جواب دینے کے اہل نہیں۔ اس کا توڑ کس طرح کیا جاسکتا ہے اس پر غوروفکر ہونا چاہیے۔
٢۔    ردِّ عمل کے تحت جو کاروائیاں کی جارہی ہیں ان کے ضمنی اثرات پر بھی غور کیاجانا چاہیے۔ بعض اوقات ایک کام کے ضمنی منفی اثرات اس کام کے اصل مثبت اثرات سے بڑھ جاتے ہیں۔
٣۔     مغرب اپنے اصل حریف کے طور پر''سیاسی اسلام''کو سامنے لارہا ہے۔
٤۔    مسلم نوجوانوں کے جذبہ ئ عقیدت و محبت رسولﷺکو برقرار رکھنا اور اس کا اصل مفہوم اور تقاضے انہیں سمجھانا،اندرونی سطح پر کرنے کے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس ،جہاں یہ واقعہ پیش آیا،اس کا سیکولرازم انتہائی جارحانہ نوعیت کا ہے جو دیگر یورپی ملکوں کے برخلاف اسلامی شعائر مثلاً حجاب تک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس پر پابندی عائد کرچکا ہے۔ فرانس میں اس حوالے سے باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے کہ فرانسیسی اقدار کو ''سیاسی اسلام'' سے خطرہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس مہم میں دائیں بازو(مذہب پسند عیسائی) اور لبرل دونوںروایتی حریف متحد ہیں۔
''سیاسی اسلام'' تو ایک طرف فرانس میں ان دنوں ''کباب فوبیا'' بھی زوروں پر ہے اور دائیں بازو والوں کو کباب ایسے مشرقی کھانے(جو روایتی طور پر مسلم خواراک تصور کی جاتی ہے) سے اپنی ثقافت خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے فرانس کے پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہمات میں بھی کباب کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے مشرقی اور غیر ملکی کھانوں کو فرانس کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے لیے خطرہ قرار دیا اور ساتھ ہی ان پر پابندی کا عزم ظاہر کیا۔
''اسلامو فوبیا''اس حد تک ان کے ذہنوں پر حاوی ہے کہ اس کے حوالے سے باقاعدہ ناول تک لکھے جاچکے ہیں۔ حال ہی میں فرانس میں ایک ناول
Submission(اطاعت، فرمانبرداری) شائع ہوا ہے۔جس میں ٢٠٢٢؁ء کے فرانس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتا رہتا ہے اور آخرکار ٢٠٢٢؁ئ میں ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کا صدربننے میں کام یاب ہوجاتا ہے ۔
''اسلامی جمہوریہ فرانس'' کی جو منظر کشی مصنف کے ذہنِ رسا سے ممکن ہوسکی اپنی خصوصیات کے اعتبار سے وہ بس یہی تھی کہ یونیورسٹیوں کو قرآن پڑھانے پر مجبور کیا جاتاہے، خواتین کے لیے حجاب لینا ضروری ہو چکا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا قانونی حق بن گیا ہے۔ خواتین کا پردہ معمول کی بات بن جاتی ہے۔تاہم مصنف محض ''منفی'' پہلو ہی اجاگر کرنے تک محدود نہیںرہا بلکہ اس نے کچھ مثبت نکات بھی اٹھائے ہیں مثلاً عورتوں کے گھر میں بیٹھنے اور ملازمتیں چھوڑ نے کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میںملک میں بے روزگاری کم ہو جاتی ہے،سخت گیر شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد فرانس میں جرائم کا دور دور تک نشان نہیں رہتا۔اس سے قبل اسی موضوع پر ایک اور ناول بھی مقبول ہوچکا ہے ''لی سوسائڈ فرانسیا ''(فرانسیسی خود کشی) نامی یہ ناول بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ایرک زمور نے لکھا تھا اور اس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ فرانس اخلاقی طور نئے اور زیادہ پراعتماد اسلام کے سامنے مجبور ہو چکا ہے اور اس سے شکست کھا رہا ہے۔اس ناول کا مصنف ماضی میں اسلام کو ''احمقانہ مذہب'' قرار دے چکا ہے۔ تاہم اب اس کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا اور مذہب کے انکار کے بعد مذہب کی واپسی ایک اچھی چیز ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اب وہ بھی ملحد نہیں رہا، بلکہ اس کے بقول روشن خیال انسان کو جس آفاقی خالی پن یا دماغی خلا کا سامنا ہے، اس سے تو اسلام بھی بہتر ہے۔'' آخر کار جب میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا، بلکہ پہلی مرتبہ پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے خیال سے خاصی اچھی ثابت ہوئی''۔مغربی تہذیب کے خلاف یہ ایک اورگھر کی گواہی ہے!
یہ ناول شاید پروپیگنڈے کی غرض سے آنے والے دور کی اپنے تئیں ایک بھیانک منظر کشی ہو نہ ہو،مغربی تہذیب اور سیکولر ازم کی ناکامی کی ایک فردِ جرم ضرور ہے۔اس کے مثبت یا منفی اثرات تو وقت گزرنے کے ساتھ ہی سامنے آسکیں گے۔ تاہم موجودہ حالات میںیہ ہمارے لیے مستقبل کی ایک اچھی تصویر ضرورہے۔ غلبہئ اسلام اللہ کا وعدہ ہے۔ وہی اسے پورا کرے گا۔ ہماری ذمے داری اپنے حصے کا کام اخلاص و جانفشانی سے کرنااور کرتے چلے جانا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ
(نشور۔ یکم تا 31 جنوری، 2015ء)