Monday, 9 February 2015

ہندوستان کی پہلی اسلامی تحریک

تازہ خواہ داشتن گرداغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہئ پارینہ را
(اگر تُم چاہو کہ سینے کے داغ تازہ رہیں،توکبھی کبھی یہ پرانے قصے پھر سے پڑھ لیا کرو!)
سید احمد شہیدؒ کی تحریکِ جہادکا مختصرتعارف و تذکرہ گزشتہ قسط میں دیا جاچکا ہے۔سید احمد شہید کی شخصیت ، ان کی جماعت اور ان کے ساتھیوں کی کیفیت کاکچھ احوال اس مضمون میں بیان کیا جائے گا۔ درحقیقت ایمان کو نشونما دینے اور ایمانی جذبات میں حرارت پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ایسے افراد اور جماعتوں کی سرگزشتوں سے واقفیت حاصل کی جائے ، ان کے مطالعے میں وقت صرف کیا جائے ، جنہوں نے اپنی زندگیاں اللہ رب العزت کی رضااور اس کے دین کی سربلندی کی خاطر وقف کردیں ہوں اور اس راستے میں کسی قربانی سے پیچھے نہ رہے ہوں ۔
سید احمد شہید کی تحریک ِ جہاد کے پس منظر کا تذکرہ ہو چکا ہے۔ اس کی خصوصیا ت مندرجہ ذیل تھیں:
١۔    سید احمد شہید کی سیرت کے اثرات
کوئی بھی تحریک اپنے قائد کی سیرت و مزاج کا گہرا اثر قبو ل کیے بنا نہیں رہتی یہ ایک عام مشاہدہ ہے ۔ جہاں بات بانی قائد کی آجائے تو وہاں مرکزی شخصیت کے اثرات کتنے ہمہ گیر ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ دشوار نہیں۔آپ عبادت و ریاضت میں پیش قدمی کرنے والے ، رضا بقضا(جو حالت پیش آجائے اسے خوش دلی کے ساتھ قبول کرنے والے گویا مرضیئ مولا ازہمہ اولیٰ)پر عامل تھے۔ ہر بڑے حادثے اور شدید آفت کے بعد برہنہ سر ہوکر دعا کرتے اور فرماتے ''بھائیو! جو مصیبت ہم پر آئی یہ ہماری کسی غلطی اور خطا کا نتیجہ ہوگی ''۔ عفوودرگزر آپ کی سیرت کا نمایا ں پہلو تھا۔ جانی دشمنوں تک کو معاف کردیتے ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ میری فطرت ابتدا سے یہی رہی ہے کہ دوسروں کی بدی کے عوض بھی ان کے ساتھ نیک سلوک کروں ۔حلم وحیا و مروت آپ کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ شجاعت و سخاوت میں آپ بے مثال تھے۔ آپ کو اعلیٰ درجے کی فراست عطا ہوئی تھی۔ خود فرماتے تھے کہ مجھے خدا نے تین چیزوں کی پیچان عطاکی ہے۔ گھوڑا، تلوار اور آدمی ! صبرواستقامت ار توکل کی جو مثالیں آپ نے قائم کیں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مشکل راستہ آپ نے رخصتوں کو ترک کرکے شاہراہ ِ عزیمت پر گامزن ہوکر اختیار کیا تھا۔ دوست دنیوی مفاد کی خاطر دشمن بن گئے اور ہر ممکن ایذا پہنچائی لیکن آپ نے ان کی خیر خواہی نہ چھوڑی ۔
فنونِ حرب اور شوقِ جہاد:    سید صاحب کی سیرت کے جو ابتدائی نقوش ہمیں ملتے ہیں ان میں ورزشیں ،فنون حرب اورمردانہ کھیلوں سے دل چسپی ، خدمتِ خلق اور جذبہئ جہاد بہت نمایاں ہیں۔ وہ خود فرماتے تھے کہ عہدِ طفلی سے یہ بات میرے دل میں جم گئی تھی کہ میں کافروں سے جہاد کروں گا اور اکثر اس کا اظہار ہوتا رہتا۔بچپن میں اس کی شکل بچوں کے دو گروہ لشکرِ اسلام اور لشکر کفر، بنا کر ان کے مابین جنگ کی رہتی ۔
والدہ محترمہ کا جذبہ:     نوجوانی میں ایک مرتبہ رائے بریلی کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔ سید صاحب بھی تلوار سنبھال کر والدہئ ماجدہ سے اجازت کے انتظار میں کھڑے ہوگئے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔جس خاتون نے سید صاحب کو بچپن میں کھلایا پلایا تھا وہ آپ کو روک رہی تھیں ۔سلام پھیر کر والدہ نے واقعہ دریافت کیا۔ سب کچھ سن کر کھلائی سے کہا بوا ، بے شک تمہیں احمد سے محبت ہے مگر میرے برابر نہیں ہوسکتی ۔ میرا حق تمہارے حق پر فائز ہے۔ یہ روکنے کا کونسا موقع ہے؟انہیں جانے دو۔ پھر جگر بند سے مخاطب ہو کر فرمایا: جلد جاؤ لیکن دیکھنا ، مقابلے میں پیٹھ نہ پھیرنا اور اگر مخالف فریق جانے کے لیے راستہ مانگے تو دے دیناورنہ عمر بھر تمہاری صورت نہ دیکھوں گی ۔
غیر معمولی جسمانی قوت:    قدرت نے دیگر صلاحیتوں کے ساتھ سید احمد شہید کو غیر معمولی جسمانی قوت سے نوازا تھا۔ اس حوالے سے کئی واقعات ملتے ہیں۔مثلاً ایک ایسا پتھر جسے بڑے بڑے پہلوان صرف گھٹنوں تک یا کمر تک بہ مشکل اٹھا سکتے تھے سید صاحب نے بلاتکلف اسے اٹھا کرکندھے پر رکھا اور بیس قدم پر لے جاکر پھینکا۔ اس کے وزن سے ہاتھ بھر زمین کھُد گئی۔ عام لوگ سمجھتے رہے کہ یہ کسی جن یا دیو کا کام ہے۔ 
آپ کی دیگر کوششوں کی طرح یہ ورزشیں اور قوت بھی اسی ٖغرض کے لیے تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ میں کام دے اور دین کی خدمت کا حق ادا کرنے میں مددگار ہوں ۔
قلبِ سلیم اور فطری سعادت:    سید صاحب کی پوری زندگی ایامِ طفلی سے لے کر آخر عمرتک سلامتی طبع اوراتباعِ سنت کا نمونہ رہی۔ ان کی سیرت کے معلوم واقعا ت میں کوئی بھی ایسا نہیں جو اس قول کے منافی ہو۔اتباعِ سنت اور راہِ عزیمت ان کے ہر ہر عمل سے نمایاں ہیں۔
حق گوئی و بے باکی:    اس دور میں سنت سے بے اعتنائی اس درجہ عام ہوئی تھی کہ سلام مسنون کی جگہ آداب و تسلیمات رائج تھیںاور بعض اونچے گھرانوں میں تو سلامِ مسنون کو آدابِ مجلس کے خلاف سمھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ شاہ عبدالعزیز ؒ کے خاندان میں بھی اس خرابی نے رواج پالیا تھا۔ سید صاحب جب شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں پہنچے تو سیدھے طریقے سے ''السلام علیکم''۔ شاہ صاحب اتنے خوش ہوئے کہ حکم دے دیا آئندہ سب لوگ اسی طریقے پر سلام کیا کریں ۔ 
دوسرا اور زیادہ اہم واقعہ اس وقت کا ہے جب شاہ عبدالعزیز نے سید صاحب کو بیعت کے بعد مختلف اشغالِ صوفیہ کی تعلیم دی جس میں سے ایک شغلِ برزخ ہے جس میں صورتِ شیخ کامراقبہ کیا جاتا ہے۔ تصورِ صورتِ شیخ کا حکم سنا تو سید صاحب نے ادب سے عرض کیاکہ حضرت! اس شغل اور بت پرستی میں کیا افرق ہوا؟مفصل ارشاد ہو۔ شاہ عبدالعزیز نے خواجہ حافظ کا مشہور شعر پڑھا:    بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
        
کہ سالکِ بے خبر نہ بود زراہ و رسم منزلہا
''
اگر مرشد جانماز پر شراب نوشی کا کہے تو بھی کرگزرو کہ سالک) اس راستے (طریقت)کے طور طریق سے ناواقف ہے''۔
سیّد صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ میں آپ کا فرماں بردار ہوں اس لیے کسبِ فیض کی غرض سے آیا ہوں، لیکن تصور شیخ تو صریحاً بت پرستی معلوم ہوتی ہے ۔ اس خدشے کو زائل کرنے کے لیے قرآن یاحدیث سے کوئی دلیل پیش فرمائیں ورنہ اس عاجز کو ایسے شغل سے معاف رکھیں۔ شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی سیّد صاحب کو سینے سے لگا لیا۔ رخساروں اور پیشانی پر بوسے دیئے اور فرمایا اے فرزند ارجمند !خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے۔ 
علمی مقام و مرتبہ :    نواب صدیق حسن خان ؒ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگرچہ سید صاحب نے علمِ ظاہر میں پوری دستگاہ حاصل نہیں کی تھی لیکن علمِ باطن میں وہ درجہئ کمال کو پہنچ چکے تھے ۔ خلقِ خدا کو راہِ ہدایت پر لگانے میں انہیں خدا کا ایک نشان سمجھنا چاہیے ۔ خلاصہ یہ کہ ماضی ئ قریب میں سید صاحب جیسے صاحبِ کما ل کا نشان کسی خطے میں نہیں ملتااور ان کی جماعتِ منصورہ سے خلقِ خدا کو فیوض کی جو دولت ملی ہے اس کے عشرِ عشیر کا سراغ بھی دنیا کے دوسرے مشائخ و علماء کے ہاں نہیں مل سکتا۔
عالم کا صحیح مفہوم:    ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں آپ نے عالم کی تعریف اس طرح فرمائی:
عالم سے یہ مراد نہیں کہ وہ صدر اور شمسِ بازغہ پڑھ چکا ہو۔ یہاں علم سے یہی مراد ہے کہ جانتا ہو، اونچی شان والا پروردگار کن باتوں سے راضی ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض (یعنی اوامر و نواہی کا اے پوراعلم ہو)صدیق اکبر اور عمرفاروق نے ہدایہ یا شرح وقایہ نہیں پڑھی تھیں، لیکن وہ ہدایہ اور شرحِ وقایہ کے مصنفوں کے پیشوا تھے ، نہ صرف یہ لوگ بلکہ ان کے پیشوا او رمجتہدین بھی انہیں ہادیانِ دین کے کلامِ پاک سے سندیں لاتے ہیں اور اسے کسوٹی قراردے کر کھرے کو کھوٹے سے الگ کرتے ہیں ''۔
طریقہئ محمدیہ:    تصوف کے بگاڑ اور اس کے بارے میں ہماری رائے سے قطع نظر اس طریقے میں جوکچھ خوبیاں ہوسکتی ہیں ، سید احمد شہید ان کا نمایاں ثبوت تھے۔ان کے دور میں ہندوستان میںتصوّف کے تین طریقے قادری، چشتی اور نقشبندی رائج تھے۔ ایک طریقہ شیخ احمد سرہندی کے انتساب کے باعث مجدد یہ کہلاتا تھا۔ سیّدصاحب ان طریقوں کے علاوہ طریقہ محمدیہ ؐ میں بھی بیعت لیتے تھے۔ طریقہ محمدیہ یہ تھا کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے الٰہی کے لیے کیاجائے ۔ نکاح کی غرض یہ ہو کہ انسان فسق و فجور سے بچا رہے۔ تجارت یا ملازمت اس نیت سے کی جائے کہ حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اہل و عیال کو بھی کھلائے۔ رات کے آرام کا مدعا یہ ہو کہ جوف لیل میں اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے اور فجر اول وقت پڑھے۔ کھانا اس لیے کھائے کہ جسم میں بقدر ضرورت طاقت بحال رہے تاکہ انسان اللہ کے احکام مستعدی سے بجا لائے ۔ نماز پڑھے ۔ روزے رکھے حج کے لیے جائے اور ضرورت پڑے تو جہاد کے لیے تیار ہو۔ غرض مقصود احکام خدا وندی کی بجاآوری اور مرضیات باری تعالیٰ کی پابندی کے سوا کچھ نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر ہر فرد آیہ مبارکہ ان صلاتی ونسکی و محیا یٰ ومماتی للّٰہ رب العالمین کا عملی نمونہ بن جائے۔
مقصد کی لگن :    سید شہید کی پوری زندگی اپنے متعینہ مقصد کے ساتھ وابستگی کی دلیل ہے ۔اللہ کی رضا کا حصول ابتدا سے آپ کی زندگی کا مقصد تھا جس کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا طریقہ آپ نے اختیار کیا۔ آپ کی پوری زندگی اسی حوالے سے بسر ہوئی ۔
معاشرتی خرابیوں کی اصلاح:    آپ کی دعوت دوسروں سے بڑھ کر پہلے خود عمل کرنے کی تھی ۔ آپ نے احیائے سنت کے لیے نکاحِ بیوگان کی مہم چلائی اور اس سنت کا اپنے گھر سے آغاز کیااور اپنی جوان بیوہ بھاوج سے نکاح ِ ثانی کیا۔ آپ کی اور آپ کے رفقاء کوششوں سے متاثر ہوکربے شمار لوگوں نے توبہ کی اور معاشرے سے بدعات،رفض وشیعت، غلط اعتقاداور عملی خرابیوں کا خاتمہ ہوا۔ابتدائی دور کی دعوت میں دوباتوں پر خاص زور تھا۔ اول یہ کہ عورتیں شرک سے احتراز کریں ۔کیوں کہ خواتین کی اصلاح پر نسلوں کی اصلاح منحصر ہے۔ دوسرے یہ کہ ہر مسلمان جہاد فی سبیل اللہ کی نیت رکھے اور اس مقصدِ عظیم کو کسی بھی وقت فراموش نہ کرے ۔ 
اپنے ہاتھ سے کام :    اپنا کام حتیٰ المقدور اپنے ہاتھ سے انجام دیتے اور جب کسی اجتماعی کام کا موقع ہوتا تو سب سے پہلے کام میں بڑھ کر شرکت کرتے خصوصاً ایسے مشکل کام جن پر دوسروں کی توجہ کم ہوتی آپ انہیں آگے بڑھ کر خود انجام دینے لگتے اور باقی لوگ بھی متنبہ ہوکر وہ کام کرڈالتے۔
آپ کا گھر دعوت کا مرکز تھا جس میں کثرت سے خواتین اور دیگر کا آنا جانا رہتا۔ ایک بار تو اتنی مہمان خواتین کی اتنی کثرت ہوئی کہ آپ کئی روزگھر تشریف نہ لاسکے۔لہٰذا مہمانوں کے لیے الگ جگہ کی ضرورت پیش آئی۔ آپ نے ایک روز اکیلے ہی دوسری جگہ مکان کی تعمیر شروع کردی۔آپ کو دیکھ کر اور بہت سے لوگ بھی اس کام میں لگ گئے اور دو ماہ کی مشقت سے ایک کچا مکان تیار ہوگیا ۔ آپ اپنے آبائی گھر کو مہمان خانہ بنا کر اہلِ خانہ کے ہمراہ اس کچے گھر میں آگئے ۔ ایک روزرات گئے مہمان آگئے ۔کھانا تیار کرنے کے لیے پانی موجود نہ تھا۔ باورچی نے پانی کے لیے کہا۔ لوگوں نے سنا اور سن کر سمجھا کہ کوئی دوسرا یہ کام کرلے گا۔ اسی اثنا میں سید صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ خود پانی بھر لائے۔ ایک روز ایک بارش میں برج کا ایک حصہ گرگیااور باقی بھی گرنے والا تھا، جس میں دو آدمی دب گئے ۔ سید صاحب کلندلے کر فوراً ملبہ ہٹانے میں لگ گئے ۔لوگوں کے منع کرنے باوجود آپ اس کام میں لگے رہے اور بالآخر ایک کو زندہ نکال لیا۔ ایک بار غلہ باہر پڑا تھا کہ بارش آگئی۔ آپ نے بھی دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر غلہ ڈھویا۔ ایک بار ایک ساتھی کو چکی پیستے دیکھا تو بلا تکلف بیٹھ کر بہت دیر چکی پیستے رہے۔ پنجتار میں مسجد کی توسیع مقصود تھی۔ تمام غازیوں سے کہا کہ ہر ایک پانچ پانچ پتھر اٹھا کر لائے۔ آپ خود بھی پتھر اٹھا کر لائے اور منع کرنے والوں سے کہا مجھے اس کارِ خیر سے کیوں روکتے ہو ۔(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment