Monday, 9 February 2015

روداد اجتماعِ عام تحریکِ اسلامی کراچی

شر سے خیر برآمد ہونا قدیم محاورہ ہے جس کی صداقت کا ایک تجربہ حال ہی میں اس وقت ہوا جب تحریکِ اسلامی کراچی کا روایتی سالانہ اجتماعِ عام،جو اس سال بعنوان''پاکستان میں تبدیلی اور انقلابِ نبوی'' اتوار،٣٠ نومبر، ٢٠١٤؁ء کوفاران کلب ، گلشنِ اقبال میں طے تھا، وہ اچانک دسمبر کی ابتدائی تاریخوں میں فاران کلب سے نزدیک ایکسپو سینٹر میں منعقد ہونے والی دفاعی نمائش کے سبب انتظامیہ کی جانب سے اس علاقے میں اجتماعات پرپابندی عائد ہونے کے باعث ملتوی کرنا پڑا۔عین اجتماع کی تاریخ نزدیک آنے کے بعد جب تمام تیاریاںتقریباً مکمل تھیںاور دعوتی کام اپنے عروج پر تھا ،یہ فیصلہ قدرتی طور پر بہت شاق گزرا۔تاہم مرضی مولیٰ از ہمہ اولیٰ کہہ کر دل کو تسلی دی اور آئندہ کے بارے میں غور وفکر شروع ہوگیا۔''نشور''کا گزشتہ شمارہ جس میں ٣٠ نومبر کے اجتماع کا شتہار شائع ہوا تھا،ترسیل کے لیے تیار تھا۔ فوری طور پر نشور کے ساتھ تصحیح کا پرچہ منسلک کیا گیا جس میں اجتماع کے التوا کا اعلان و معذرت تھی۔جن جن مقامات پرسابقہ تاریخِ اجتماع کا اعلان ہوچکا تھا، ہینڈ بل تقسیم ہوئے تھے انفرادی ملاقاتوں میں دعوت دی گئی تھی ، ان سب تک اجتماع کے التواء کی اطلاع پہنچانی تھی، سو یہ کام ہوا۔(اس کے باوجود بہت سے لوگ عدم اطلاع کے باعث ٣٠ نومبر کو فاران کلب پہنچ کر کوفت کا شکار ہوئے ، جن سے اس سطور کے ذریعے مزید معذت کی جارہی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا فاحسن الجزاء)
امیرِ کراچی محترم تسنیم احمد صاحب کا ذہن تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے امکانات اور تدابیر کے حوالے سے مختلف تجاویز کا گہوارہ بنا رہتا ہے۔ آپ کی تجویز پر غور و فکرکے بعدطے کیا گیا کہ''پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کی راہیں '' کے زیرِ عنوان ایک مجلسِ مذاکرہ منعقد کی جائے ۔ جس میں اقامتِ دین کی داعی تینوں جماعتیں (جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی اور تحریکِ اسلامی )اس عنوان کے حوالے سے اپنے اپنے موقف کی اس طرح وضاحت کریں کہ آپس کے مشترکات اور اس سلسلے میں مستقبل کے امکانات پر زیادہ زور ہو تاکہ عوام الناس کے سامنے اتحاد و یگانگت کا پیٖغام جاسکے اور انہیں فریضہئ اقامتِ دین کی ادائی کے لیے ابھارا جاسکے۔
سید منور حسن صاحب، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی ، اس سے قبل
٢٠١٢؁ء میں تحریکِ اسلامی کے سالانہ اجتماع میں منعقدہ ایک مذاکرے میں شریک ہوچکے تھے۔ اپنی بزرگی اور تحریکی مقام کے لحاظ سے انہیں جماعتِ اسلامی کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
امیرِ تنظیم ِ اسلامی محترم عاکف سعید صاحب نے خوش دلی کے ساتھ اس اجتماع میں شرکت کی یقین دہانی کرائی جب کہ تحریکِ اسلامی کی نمائندہ محترم امیرِ تحریک حافظ سید زاہد حسین صاحب کے ذمے تھی۔
اس اجتماع کے لیے
٢١ دسمبر، ٢٠١٤؁ئ، اتوار کا دن اور تاریخ طے ہوئی ۔
ذہنوں پر چھائی پژمزدگی ،اب جوش و ولولے میں بدل گئی تھی۔ اس اجتماع کے شایانِ شان تیاری کرنے کے لیے تمام کارکنان اپنی اپنی سی کوششوںمیں مصروف ہوگئے ۔اجتماع کے انتظامات کے حوالے سے مختلف کمیٹیوں کی تشکیل پہلے ہی ہو چکی تھی اور دعوتی کام بھی جیسا کہ ذکر ہوا کافی آگے بڑھ چکا تھا۔ تاہم اجتماع کی اس قدرے بدلی صورت کے حوالے سے کام کا جائزہ لے کر اس کے لیے حکمتِ عملی تشکیل دی گئی ۔ محترم امیرِ تحریکِ اسلامی پاکستان ،جناب حافظ سید زاہد حسین صاحب کی مشفقانہ رہ نمائی ہر موقع پر کارکنان کو حاصل رہتی ہے۔ محترم امیرِ کراچی ، تسنیم احمد صاحب اس پور ی مہم کے نگراں کے طور پر قیم کراچی اور دیگر ذمے داران سے مستقل رابطے میں تھے ۔کوششیں بھی تھیں اور اس سے بڑھ کر رب العزت کے حضور تسبیح و مناجات اور دعائیں بھی جاری تھیں۔
اللَّھم احسن عاقبتنا فی الامور کلھا ، و اجرنا من خزی الدنیا و عذاب الاخرتہ۔
''اے ہمارے رب ہمارے سارے معاملات کا انجام احسن کر دے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے''-
اسی دوران
١٦ دسمبر کا پشاور کا المناک سانحہ پیش آچکا تھا۔نام نہاد دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں خونِ مسلم کی ارزانی کا ایک اور اندوہناک واقعہ۔ابلاغیاتی اداروں کی جانب سے رائے عامہ کودہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں صلیبی جنگ کے لیے مزید قربانیاں دینے پر آمادہ کرنے کام زور وشور سے جاری تھا۔ دہشت گردی کے اصل اسباب اور ان کے سدباب کی جانب متوجہ کرنے کے بجائے حسبِ معمول دینی اداروں اور دینی سوچ کو ہدفِ ملامت بنانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ عقل و خرد کی ہر بات رد کرکے مطالبہ صرف ایک تھاہر ایک ان کے ذہن سے سوچنا شروع کردے ورنہ مخالفت کی ہر آواز کو خواہ کتنی ہی دانش مندانہ اور دلسوز کیوں نہ ہو ، کچل کے رکھ دیا جائے ۔ دینی ادارے دفاعی مقام پرآگئے تھے۔ اجتماع کے حوالے سے خدشات ذہن میں جنم لے رہے تھے تاہم اللہ کی مدد پر بھروسا پہلے بھی تھااور اب بھی اسی کا آسرا تھا۔ خیال آیا کہ یہ اجتماع تو ایک اچھا موقع ہے اپنی بات مؤثر انداز میں منتقل کرنے کا۔لوگوں کے سامنے اسلام کا پیغام صحیح انداز میں واضح کرنے کا اور کرنے کے اصل کام کی طرف رہ نمائی کا،جس کے نتیجے میں آخرت میں سرخ روئی اور دنیا میں دہشت گردی ،بے امنی ، مہنگائی اور افراتفری کے ان ناسوروں سے نجات حاصل کی جاسکے ۔
پھر اجتماع کا دن آن پہنچا۔گویا امتحان کا دن تھا۔ زندگی خود ایک امتحان ہے۔ اس میں چھوٹے بڑے ایسے کئی امتحانات آتے ہی رہتے ہیں جن سے ہمیں اپنی مجموعی تیاری کو جانچنے اور اس بڑے امتحان کی تیاری کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔
گزشتہ شام یہ خبر موصول ہوچکی تھی کہ موسمی خرابی کے باعث محترم عاکف سعید صاحب ، امیرِ تنظیمِ اسلامی کی پرواز ملتوی ہوتے ہوتے منسوخ ہوگئی ہے اور وہ اس اجتماع میں شریک نہیں ہوپائیں گے۔ ان سے گزارش کی گئی کہ وہ اپنے کسی معتمد رفیق کو اس کام پر مامور کردیں جو ان کی نمائندگی اس اجتماع میں کرسکے ۔لہٰذا محترم شجاع الدین شیخ صاحب نے اس اجتماع میں تنظیمِ اسلامی کی نمائندگی کرتے ہوئے تنظیم کا موقف پیش کیا ۔
اجتماع گاہ علی الصبح کارکنوں سے آباد تھی۔ تزئین و آرائش کے ذمے داراپنے ساتھیوں کے ہم راہ بھاگ دوڑ میں مصروف تھے ۔ مکتبہ تحریکِ اسلامی پرایک جانب'' نشور'' کا خوب صورت بینر آویزاں تھا۔اجتماع گاہ میں چاروں طرف مختلف آیاتِ قرآنی اور تحریکی لٹریچر سے مؤثراقتباسات کے بینرز اپنی بہار دکھا رہے تھے ۔اجتماع میں خواتین کی شرکت کا بھی انتظام تھا۔
اجتماع کا وقت
١٠ بجے صبح تھااور اس سے قبل ہی لوگوں کی آمد شروع ہوچکی تھی۔امیرِ کراچی تسنیم احمد صاحب پہنچ چکے تھے۔امیرِ تحریکِ اسلامی پاکستان حافظ سید زاہد حسین صاحب اورمحترم محمد جلیل خان صاحب قیم تحریک بھی تشریف لاچکے تھے۔ ۔ محترم جلیل خان صاحب کوا للہ تعالیٰ صحت و عافیت کے ساتھ رکھے وہ اس پیرانہ سالی میں جواں ہمتی کی تصویر بنے ہمارے عزم و حوصلے کو مہمیز دینے کا کام دیتے ہیں ۔ دھن کے پکے اور لگن کے سچے ۔ ایسے لوگ نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں ۔
محترم جناب سید منورحسن صاحب، سابق امیرِ جماعتِ اسلامی پنڈال میںداخل ہورہے تھے۔اپنے بعض حالیہ افکار کی طرح منفرداور تنہا !چال سے باوقار سا اضمحلال ظاہر تھا۔ بڑھ کر استقبال کیا ۔حال احوال پوچھا۔ فرمانے لگے طبیعت نرم گرم رہتی ہے۔ دل سے ان کی صحت و عافیت کے لیے دعا نکلی ۔ اللہ تمام بزرگان و بیماران کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے ۔
١٠ بجے کاروائی کا آغاز ہوا ۔راقم الحروف نے معزز مہمانانِ گرامی کو اسٹیج پر مدعو کیااورجملہ حاضرین کو خوش آمدید کہا۔اجتماع کا آغازتلاوتِ کلام مجید سے ہوا۔حافظ محمد کامران صاحب نے تلاوت و ترجمے کید سعاد ت حاصل کی ۔ اس کے بعدامیرِ تحریکِ اسلامی کراچی تسنیم احمد صاحب کودعوت دی گئی کہ وہ موضوع پر ابتدائی گفتگو فرمائیں۔جناب تسنیم احمد صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز کیا ۔ اس دوران میں محترم عاکف سعید صاحب کے نمائندہئ خصوصی جناب شجاع الدین شیخ صاحب تشریف لاچکے تھے ۔ محترم امیرِ کراچی نے اپنی گفتگو کے دوران انہیںخوش آمدید کہا اور اسٹیج پر مدعو کیا۔آگے بڑھنے سے قبل ایک وضاحت کہ تقاریر نقل کرتے ہوئے حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ مقررین کے اصل الفاظ و بیان کو برقرار رکھائے تاہم بعض مقامات پرتکرار سے بچنے اور اختصار کی خاطرمفہوم تبدیل کیے بغیرالفاظ میں ردوبدل کیا گیا ہے ۔قیامِ پاکستان کے پس منظرمیں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے امیرِ کراچی نے فرمایا:
''مسلم لیگ نے قیامِ پاکستان کا نعرہ لگایا اور کہنے والے نے (اشارہ ہے سیّد مودودی ؒ کی جانب)برملا کہا کہ جس اندازسے اسلامی حکومت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اس سے مسلمانوں کی حکومت تو بن جائے گی ، مگر اسلامی حکومت نہیں بن سکے گی ۔ ایسی تو بہت ساری مسلمان حکومتیں موجود ہیں مجھے اگر ایک گز زمین کا ٹکڑا ایسا مل جائے جس پر اسلام نافذ ہوتو وہ میرے لیے اس پورے کرہ ارض سے زیادہ بہتر ہوگا۔پاکستان بن جانے کے بعد پرزور تحریک کے ذریعے اسلامی دستور حکم رانوں کے نہ چاہتے ہوئے نافذ ہوا۔ اس کے باوجود اسلام کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے رہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کی راہیں
٠ء علی گڑھ میں بیان کی گئی تھیں۔جس میں اصل کام مردانِ کار کی تیاری کا تھا۔ ایسے افراد جو ایک طرف قرآن و سنت کے عالم ہوں اور دوسری طرف دنیا کے جدید ترین علوم کے بھی ماہر ہوں ۔ بوجوہ یہ کام نہ ہوسکا۔ قیام ِ پاکستان کے وقت نہایت اخلاص کے ساتھ سوچا گیا کہ یہ نئی مملکت اسلام کے نام پر قائم ہوئی ہے لہٰذا اسی مقصد کو آگے بڑھایا جائے ،چہ عجب کہ اللہ ہماری مدد فرمائے اورپھر اسی نظریے کے تحت اسلامی دستور کے نفاذ کی مہم چلائی گئی اور حکم رانوں کی مخالفت کے باوجود اسے منظور کرایا گیا۔جمہوری سیاست میں حصہ لیا گیا۔ اس وقت یہ بات سوچی گئی کہ مسلمان اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں ان کے جذبات سے فائدہ اٹھایا جائے اور جمہوری طریقہ کار کے تحت اسلامی نظام کو نافذ کیا جائے۔یہ کام پورے اخلاص کے ساتھ کیا گیا مگر یہ کم و بیش ٦٠ سال کی پوری انتخابی اور سیاسی جدوجہد ہمارے سامنے ہے اور نتائج بھی کہ قیام اسلامی حکومت یا اقامتِ دین کی جانب کوئی معمولی سی بھی قابلِِ ذکر پیش رفت نہ ہو سکی!
آخرت کے انکاری اور کتاب سے ناآشنا بت پرست معاشرے اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ آخرت ، قرآن اور نبی کی سنت کو اعتقا داً حجت مانتے ہوں بڑا فرق ہے ، لاکھ شعوری اور نسلی مسلمان کی تعبیروں سے(دونوں کے درمیان فرق کے حوالے سے) اس معاشرے کو مکہ کے جاہلی معاشرے سے تشبیہ دی جائے مگر دونوں معاشروں میں احیائے دین اور غلبہ دین کا کام کرنے کے لیے تقاضے مختلف ہیں مانا کہ دعوت دین کے لیے مشترک اساسات بھی کم نہیں ہیں۔
گزشتہ
٦٠ سالوں میں اور خصوصا ١٩٧٠ء کے انتخابات میں ناکامی کے بعددیگر طریقہ ہائے کار Strategies پر بھی سوچا جاتا رہا جن سے اقامتِ دین کا مقصد حاصل کیا جاسکے یا اسلامی تحریکات(Islamic Renaissance Movements)ایسے افراد کی تیاری میں کام یاب ہوجائیں جو اپنی اہلیت، علمیت ،اخلاص ، محنت ، امانت و دیانت اور بے لوث زہد وتقوے کے زور پرفطری طور پرمسلم معاشرے میں بغیر کسی خون ریزی ، جبر ، احتجاج ، مطالباتی مہمات اور انتخابات کے معاشرے کی قیادت حاصل کرلیں اور اس طرح غلبہ دین کے ساتھ اسلامی حکومت قائم ہوسکے ۔ یہ اچھی طرح جان لیا جائے کہ غلبہ دین ایک ہمہ گیر چیز ہے ۔ اسلامی حکومت اُس کا محض ایک جزہے، بے شمار غلط فہمیاں جز کو کل سمجھنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ جو لوگ منہج نبوی کو اختیار کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بڑی مبارک بات کرتے ہیں ، انہیں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح سنت نبوی ﷺ کے نام پر اونٹ گھوڑے اور گدھے اب سواری کے طور پر استعمال کے لیے لازم نہیں کیے جا سکتے اُسی طرح نبی ﷺنے ، کتاب اور آخرت سے نا آشنا مشرک معاشرے میں وحی الہٰی کی رہ نمائی میں اسلامی حکومت تک پہنچنے کے لیے جوراستہ اختیار کیا وہ راستہ بعینہ ایک مسلم معاشرے میں احیائے دین کے لیے مناسب حال شکل میں اختیار کرنا ہوگا بالکل اُسی طرح جس طرح ہم اونٹ گھوڑے اور گدھے کی جگہ مناسبِ حال سواری استعمال کرتے ہیں۔
معاشرے میں انقلاب لانے کے مختلف عوامل اور طریقہ کار ہیں ۔ ایران میں انقلاب آیا۔ مصر، بنگلہ دیش۔ان سب میں اسلامیان نے پیش قدمی کی لیکن انہیں اپنی بعض کم زوریوں کے باعث پیچھے ہٹنا پڑا۔ ترکی میں بھی کچھ نہ کچھ کام ہوا۔ پاکستان میں بڑی پیش قدمی اسلامی دستور ہے۔یہاں کمیونز م کا راستہ روکاگیا۔یہاں مختلف دینی طبقات نے بہت کام کیا لیکن اسلامیان (غلبہ اسلام کے داعی) بہت سے کام جو کر سکتے تھے نہ کرپائے ، مگر اللہ نے یہ کام بعض دوسروں سے لے لیا۔ خواتین یونیورسٹی کا قیام، اسلامی بینکاری وغیرہ ایسے کام ہیں جو فکرِ مودودی کے حامل لوگوں نے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں نے انجام دیے۔
ہمیں غلبہ دین کے لیے مساجد کو اپنا مرکز بنانا ہوگا۔ اُن کی تعمیر اور آبادکاری کو فرضِ اولین جاننا ہو گا، اُن کی تنظیم کرنی ہوگی ، دفاتر اور سیمینار اور شادی ہالوں کے مقابلے میں مساجد کو اپنے پروگراموں کامرکز بنانا ہو گا۔فکرِ مودودی کی حامل تینوں جماعتوں کو چاہیے کہ مشترکہ ورکنگ گروپس اورکمیٹیاں بنائیں جو باطل کی پیش قدمی کا جائزہ لیتی رہیں۔عدلیہ ، انتظامیہ ، مقننہ اورایجنسیز کی گم راہی کے لیے اگر امریکا اور باطل قوتیں اپنا سارا زور صرف کردیں تو ہم کیوں ان اداروں سے متعلق اپنے مسلم بھائیوںکی ہدایت و رہ نمائی کے لیے پیچھے رہیں ۔مسلم معاشرے کے تمام شعبوں میں اپنی دعوت کے نفوذ کا اہتمام کرنا ہوگا ۔اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہو گی ۔ انہیں دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے قابل بنایا جائےکہ وہ جاہلیت کا ہر ہر محاذ پر مقابلہ کر سکیں۔فکرِ مودودی کے حامل غلبہ دین کی علم بردار تحریکوں کو مل جل کر اپنے ادارے، اسکول و یونی ورسٹیاں، اپنے بینک، اپنی مائکرو فائننس کمپنیاں ، اپنے ہسپتال ، میڈیکل کیئرنیٹ ورک بنانے ہوں گے۔الغرض ہمیں اپنے حال کو دیکھنا ، اپنی تربیت پر توجہ دینی ، اپنی اصلاح، اپنی تنظیم اور اپنی افرادی اور وسائلی طاقت کی تنظیم کرنی ہوگی۔ ہمیں اب باہر سے زیادہ(
extrovert) ہونے کے بجائے اُن کی طرف دیکھنا ہو گا جو ہم میں شامل ہو چکے ہیں۔(introvert) ہونا ہو گا) ۔یہ سب اس لیے کہ غلبہ دین محض پارلیمنٹ کا نام نہیں۔ یہ پورے معاشرے کو قرآن کی جانب پلٹا دینے کا نام ہے، پوری عدلیہ ، پوری فوج ، پوری بیوروکریسی ، پورا میڈیا قرآن کے تابع ہونا چاہیے ، آئیے! اسلام کی طرف پیش قدمی کریں ۔ ہمہ گیر دین کی طرف ایک اسلامی معاشرے کی طرف کہ جب کوئی اس کے قریب آئے تواُس کا لمس ، اُس کی نرماہٹ و گداز ، اُس کی خوش بوکومحسوس کر سکے اور پھر ساری دنیا میں یدخلون فی دین اللہ افواجاکا منظر نظر آئے گا، اے کاش نظر آجائے!!!
اس فکر انگیز گفتگو نے بعض سوالات ذہن میں اٹھائے اور کچھ امکانات کی نشان دہی بھی کی۔
اس کے بعد محترم شجاع الدین شیخ صاحب کو امیرِ تنظٰیم ِ اسلامی کے نمائندہ کے طور پر دعوت دی گئی ۔ محترم شجاع الدین شیخ صاحب نوجوان و باکمال عالم اوربے باک و پرجوش مقرر ہیں۔ آپ کے دروس لوگوں میں بہت پسند کیے جاتے ہیں خصوصاً ہر سال رمضان المبارک میں آپ کادورہئ ترجمہ قرآن کثیر تعداد میں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ماشاء اللہ ۔آپ نے تحریکِ اسلامی کو اس اجتماع کے انعقاد پر مبارک باد دی اور دعا کی کہ اس اجتماع کے مقاصد بھی احسن طور پر حاصل ہوسکیں ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز قرآن ِ کریم کی تین آیاتِ مبارکہ تلاوت سے کیااور ان کے حوالے سے انہوں نے کہا :
''اقامتِ دین کا کام بھی دین کے دیگر احکامات کی طرح اسوہئ رسول کی روشنی میں ہی کیا جانا ہے۔ہمارے ہاں جذبے کی الحمدللہ کمی نہیں ۔ ضرورت اس نبوی طریقہئ کار کو سمجھنے کی ہے جس کے تحت یہ کام رسول اکرم
ﷺنے فرمایا۔اس سلسلے میں انہوں نے بانیِ تنظٰیمِ اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد lکی معروف کتاب ''منہجِ انقلاب نبوی ﷺ''کے حوالے سے چھ انقلابی مراحل کا تذکرہ فرمایا جن میں :
١۔    اولین دعوت ہے ۔ عمر بن خطابؓ، خالدبن ولیدؓاور دیگر صحابہ کرامcکسی نرسری میں تیار نہیں ہوئے ۔ وہ اسی معاشرے کا ایک حصہ تھے ۔ ان کے دل میں ایمان پیدا کیا گیا جس نے انہیں تبدیل کیا۔ یہ کام دعوت کے نتیجے میں ہوگا۔ قرآن ِ کریم کے ذریعے توحید کی دعوت کی دی جائے۔
٢۔    دوسرا مرحلہ دعوت قبول کرنے والوں کی تنظیم کا ہے۔
٣۔    تیسرا مرحلہ تربیت کا ہے۔ اللہ والے جن کا مقصود آخرت کی کام یابی ہے انہیں تیار کیا جائے۔
٤۔    چوتھا مرحلہ صبر کے مستقل مراحل کا ہے۔لوگوں کے دل جیتنا ہے۔ یہ کام مکہ کے ١٣ برس میں ہوا۔
٥۔    اس کے بعد اقدام کا مرحلہ جو نبوی منہج میں وحی کے ،مطابق ہو ا لیکن اب اس کے لیے مشورہ ہوگااور
٦۔    آخری مرحلہ قتال کا آسکتا ہے۔
عوام الناس میں اسلامی حکومت کے قیام کے حوالے سے تین طرح کے رجحانات ہیں۔
ایک بالکل سادہ اور عام مسلمان پریشان ہوتا ہے کہ جب سب(دینی جماعتوں)کی منزل ایک ہے تو سب جمع کیوں نہیں ہوجاتے۔دوسرے وہ مخلص تحریکی کارکن ہیں جو سمجھ نہیں پاتے کہ اختلاف کس چیز میں ہے۔تیسرے میں وہ لوگ شامل ہیں جو اقامتِِ دین کی جدوجہد میں ابتداً شریک ہوئے اور بعد میں کسی وجہ سے اس کام سے الگ ہوئے تو اس کام کے ہی خلاف ہوگئے اور اس کی مخالفت شروع کردی۔
اس دوسرے گروہ کے حوالے سے عرض ہے کہ مسلکی جماعتوںکی ترجیح اسلامی حکومت نہیں۔مدارس اور ان کے حلقے ہیں ۔ ان کی اپنی اہمیت ہے مگر یہ اصل نہیں۔وہ سب بھی خیر کے کام ہیں ۔مگر اقامتِ دین کے حوالے سے ان کا رویہ اکثر اپنی محدود مقاصد کے حصول کا ہوتا ہے۔اقامتِ دین کے حوالے چند جماعتیں باقی رہتی ہیں ۔ جماعتِ اسلامی ، تنظیمِ اسلامی ، تحریکِ اسلامی ، تنظیم الاخوان، حزب التحریر وغیرہ۔طالبان کی بات آگے آئے گی۔بعض لوگ تبلیغی جماعت کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ ان سب میں فرق ہے ۔ان کے کام کے حوالے سے پانچ طریقہ کار سامنے آتے ہیں ۔
١۔    دعوت کا منہج(تبلیغی جماعت)۔ ٢۔    نصرت کا منہج(حزب التحریر)۔
٣۔    نتخابات کا منہج(جماعتِ اسلامی، تحریکِ اسلامی)۔٤۔    قتال کا منہج(طالبان)۔
٥۔    تحریکی منہج(تنظیمِ اسلامی)
دعوت کا منہج کہ صرف دعوت اور دعوت کے ذریعے اسلامی حکومت آجائے گی تو اسوہ رسول میں تو ہمیں قتال بھی ملتا ہے، تنظیم بھی ملتا ہے ، تربیت بھی ہے۔ صرف دعوت کی بنیاد پر تو کبھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوسکتی ۔
نصرت کا منہج یعنی کہ ہر ملک میں جولوگ اقتدار و اختیار کے مالک ہیں انہیں تبدیل کیا جائے اور اس کے نیتجے میں انقلاب آجائے ۔اس میں کئی کم زوریاں ہیں۔یہ لوگ اگر تبدیل ہوبھی گئے تو ضروری نہیں کہ یہ آپ کو ہی اقتدار میں لائیں۔پاکستان فوج کی مثال لی جائے تو جو کچھ اس کے معاملات رہے ہیں ان سے نصرت کی امید ایک سوالیہ نشان ہے۔
تیسرا انتخابی طریقہ ہے۔
٦٨ سال سے اس پر کام ہورہا ہے۔ مشرف دور میں ایم ایم اے کی شکل میں دینی جماعتوں کو وہ کچھ ملا جو زیادہ سے زیادہ مل سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود مشرف دور بدترین اقدامات سے بھرا ہوا ہے۔سید مودودیؒ نے آخری وقت میں انتخابی سیاست کے حوالے سے اپنی رائے تبدیل کرلی تھی(یہ بات بعض حلقوں کی جانب سے کہی جاتی ہے لیکن سید مودودیl کی جانب سے اعلانیہ اس موقف سے رجوع کہیں ثابت نہیں ، اس کے برعکس ن کے آخری دور کی تحاریر اور انٹرویو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ آخر تک اپنے مشہور موقف سے دستبردار نہیں ہوئے تھے۔ مرتب) ۔جن ممالک میں اس کے ذریعے اقتدار حاصل بھی کیا گیا وہاں بھی کوئی حقیقی تبدیلی اس انتخابی سیاست کی بنیاد پر نہ آسکی ۔
چوتھا منہج قتال کا ہے۔ قرآن کریم جس کی تاکید سے بھرا پڑاہے۔خالص شرعی بنیادوں پر قتال فی سبیل اللہ کی جدوجہد صرف طالبان افغانستان کررہے ہیں۔پاکستان میں اس حوالے سے تحریک طالبان پاکستان کام کررہی ہے( لیکن)اصلاً ان کی تحریک نفاذِ اسلام کے لیے نہیں، معصوم و بے گناہ بچوں اور بڑوں کی شہادت کے انتقام کے لیے وجود میں آئی اور بعد میں پاکستان میں اسلامی شریعت کے نفاذ کا مطابلہ سامنے آیا۔ قتال فی سبیل اللہ کی اہمیت و فرضیت پر سوال نہیں ۔ لیکن جیسے نماز ،روزہ اور زکوٰۃ جیسی عبادات کچھ مخصوص حالات اور اوقات کی پابند ہیں اسی طرح قتال کا بھی معاملہ ہے۔ مسئلہ خروج فقہ کا معروف مسئلہ ہے۔ افغان طالبان کفار کے خلاف لڑ رہے ہیں۔جب کہ پاکستان میں مدمقابل مسلمان ہیں ۔کسی فرد یا گروہ کی تکفیر اہلِ علم کا کام ہے ۔دوسرے یہ کہ عوام الناس کی اس حوالے سے کیا تیاری ہے۔تو کیا یہ طریقہ کار ممکن العمل ہے؟ بظاہر محسوس نہیں ہوتا۔ کہیں شرائط پوری ہوتی ہوں تو یہ ممکن بھی ہوسکتا ہے۔
پانچواں منہج تحریک کا ہے۔ دعوت کا کام کیا جائے۔ جو مراحل پہلے بیان ہوئے ان پر عمل کیا جائے۔پریشر گروپ بنایا جائے ۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ اپریل
٢٠١٠؁ء میں جامعہ اشرفیہ میں ڈھائی سو دیوبندی علماء کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے اتفاق رائے سے فتویٰ دیا کہ اس پاکستان میں بلٹ اوربیلٹ کے ذریعے اسلام نہیں آسکتااس کام کے لیے ایک پرامن مطالباتی تحریک برپا کرنا چاہیے۔اس سے پہلے قراردادِ مقاصد کے لیے علماء کی جانب سے مطالباتی تحریک چلائی گئی۔ ختمِ نبوت کے حوالے سے ایک عوامی تحریک چلائی گئی قادیانیوں کو غیر مسلم قراردیا گیا۔ تحفظ ِ ناموسِ رسالت کی تحریک چلائی گئی۔اس کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی و دنیاوی مقاصد کے لیے کامیاب تحریکیں چلائی گئیں۔یہی طریقہ اسلامی حکومت کے قیام کا واحد ممکنہ طریقہ ہے''۔
محترم شجاع الدین شیخ صاحب نے اپنے مخصوص جاندار اور پراثرانداز میں تنظیمِ اسلامی کا دیرینہ موقف پیش کیا تھا۔شیخ صاحب کی تقریر کے بعد میں دیر تک ا ن کی گفتگو اور اجتماع کے مقصد (اقامت دین کی داعی جماعتوں کے مشترکات اور باہمی تعاون میں اضافے کے امکانات )میں ربط تلاش کرنے میں کوشاں رہا ۔
اب محترم سید منور حسن صاحب کو دعوتِ خطاب دی جارہی تھی۔جماعتِ اسلامی کی موجودہ صورت کے معماروں میں سے ایک۔ جن کی ذات دعوت ، تنظیم اور جدوجہد کا استعارہ ہے۔ میں نے کوشش کی کہ سنبھل کر بیٹھ جاؤں۔ سیدمنور حسن صاحب کی تقریر اپنے اندر ایک خاص نوع کی کشش رکھتی ہے جو سامعین کو متوجہ رکھتی ہے اور جب سے ان کے بعض حالیہ بیانات کا معاملہ ہوا ہے'' لوگوں'' کی ''توجہ'' میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے کہ''دیکھیں اس بحر کی تہہ سے اچھلتا کیا ہے !''۔سید صاحب فرمارہے تھے:
آج کا موضوع ایک بہت ہی زندہ و تابندہ موضوع ہے ۔اس پر غور و فکر جاری رہتا ہے۔ یہ سوال موجود ہے کہ تمام دینی جماعتوں اور گروہوں کی موجودی کے باوجود اسلامی حکومت کے قیام کی امید کے دیے کیوںٹمٹمانے لگے ہیں۔عمرکے ساتھ بھی یہ چیز ہوتی ہے اور جدوجہد کے اندرآدمی ڈھلان پر چل پڑے توبھی یہ صورت نظر آتی ہے۔جن مناہج کی بات ہوئی وہ سب اپنی جگہ درست ہیں۔لیکن نتائج کے حوالے سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
انتخابی سیاست کے نتائج سب کے سامنے ہیں لیکن اس پر اتفاق ہے کہ جمہوری عمل معاشرے کوزندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے ورنہ محرومیوں کی داستان طویل سے طویل ہوجاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو جمہوریت رائج ہے کیا وہ واقعی وہی
Textbookجمہوریت ہے جس کی بات کی جاتی ہے؟ان سوالات پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔اسلامی حکومت کے حوالے سے کئی عشروں کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ یہ کسی مقام پر اچانک نمودار ہونے والی چیز نہیں ہے۔ہر مقام پر لوگ اپنے حالات سے سیکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں۔اسلامی تحریکوں کا ماڈل ہر جگہ الگ الگ ہوگا۔ بنیاد قرآن و سنت ہوگی۔
امریکا پوری دنیا کا امام قرارپایا ہے۔ سب اسی کے تابع ہیں۔لیکن افغا نستان میں اس کے ساتھ کیا ہوا ۔
١٢ سال کی جنگ کا حاصل کیا ہے۔ عملاً یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ امریکا اور نیٹو کی بصیرت کا قبرستان افغانستان بنا ہے۔ امریکا کی دوراندیشی اور دوربینی کا قبرستان افغانستان بنا ہے۔قتال بھی ایک منہج ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کی شرائط ہیںاور یہ جو پچھلا تجربہ ناکام ہوا ہے وہ شرائط کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان کے بارے میںجو سوالات ہیں ان کے تشفی بخش جوابات درکار ہیںجن کے جوابات اتنی چھوٹی مجلس نہیں دے سکتی ۔ لیکن ان مجلسوں کا انعقاد بہت ضروری ہے۔تبلیغی جماعت کے بھائیوں سے بات کرنے کو دل چاہتا ہے کہ جس طرح سے دعوت و تبلیغ آپؐ کی سنت ہے۔ اسی طرح اقامتِ دین بھی ہے۔لیکن یہ بات ہم ان تک پہنچا نہیں سکے۔لیکن اگر دیوبندی علماء اگر یہ بیڑا اٹھائیں (تو یہ کام ممکن ہے)۔پاکستان میں اسلامی ریاست تک پہنچنے کی جو رکاوٹیں ہیں اس میں دینی لوگ خود ایک رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مسلکی حوالے سے جو جماعتیں ہیں اس صورتِ حال کے تبدیل ہونے کا بھی بیڑا اٹھانا چاہیے ۔اگر یہ لوگ تیار ہوجائیں تو بہت بڑی تعداد میں مخلصین مہیا ہوسکتے ہیں۔تبلیغی جماعت کو تیار کیے بغیر اسلامی حکومت کا خواب شرمندہئ تعبیر نہیں ہوسکتا۔اہلَ حدیث حضرات میں تبدیلی کا منہج پہلے سے موجود ہے ۔بریلوی مکتبہئ فکر کے ساتھ بھی رابطے قابلِ توجہ چیز ہیں۔
عالمی سطح پر موجود منظر نامے سے قربت پیدا کیے بغیر اسلامی تحریکیں اپنے لائحہئ عمل اور ترجیحات کا تعین نہیںکرسکتی ہیں ۔اسرائیل کے قیام کے بعد سے امت ِ مسلمہ کے خلاف مختلف عنوانوں سے جنگ جاری ہے۔مغربی دنیا ہمیں تشدد کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے۔اسلامی تحریکوں کو خوف زدہ اور مشتعل کرنے کی حکمت ِ عملی اختیار کی جارہی ہے جس کا مظاہرہ مصر اور بنگلہ دیش میں کیا جاچکا ہے لیکن اسلامی تحریکیں ان مسائل پر قابو پارہی ہیں۔ہمارا راستہ تشدد کا راستہ نہیں۔ نبی اکرم ساری زندگی سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت کی دعا مانگتے رہے۔اس کلچر سے ضرور رغبت ہونی چاہیے۔اس حوالے کو بہت مضبوط ہونا چاہیے۔اللہ کی رضا اس کی جنت کے لیے ان رویوں کو ہمیں اپنے اندر پروان چڑھتے دیکھنا چاہیے ۔موجودہ گنجلگ صورتِ حال میں اسلامی قوتوں کا باہمی رابطہ بہت ضروری ہے۔ہمارا موقف ایک ہے۔ باہمی اجنبیت اور دوری کو دور ہونا چاہیے۔میں تحریکِ اسلامی کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے بروقت اور برمحل اس اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔اس سلسلے کو آگے بڑھنا چاہیے۔
مقتدر طبقات کوامریکا سے خوف کی نفسیات پر قابو پانا ہوگا کیوں کہ امریکا خود زوال پزیر ہے اور اس کی حکمتِ عملی ساری دنیا میں ناکام ہوئی ہے۔امریکا ایک ملک نہیں ایک تہذیب کا نام ہے ۔ اس تہذیب نے خود کو ٖغالب کیا ہے۔لیکن یہ تہذیب غلبے کے باوجوداپنے دعووں کو پورا نہیں کرسکی۔ غربت، نانصافی ، تعصب، جہالت پر قابو نہ پایا جاسکا۔ لیکن تہذیبوں کی ناکامی کے بعد ان کی جگہ کوئی دوسری تہذیب لیتی ہے۔ مغرب کے زوال میں اسلامی ریاست کا حصہ نہیں ہے۔ پاکستان کے تناظر میں ناگزیر ہے کہ ہم ایسے لوگ جو لوگ اتفاق رائے رکھتے ہیں ، انہیں یکجا ہونا چاہیے۔ یکجا کا مطلب انضمام نہیں۔پہلے مرحلے میں ناگزیر ہے کہ ایک موقف رکھنے والے باہمی اپنائیت پیدا کریں اور پھر تبلیغی بھائیوں سے بھی رابطہ ہونا چاہیے۔میں آج کی کوشش کے حق میں دعائے خیر بھی کرتا ہوں اور مبارک باد بھی پیش کرتا ہوں''۔
محترم سید منور حسن کی بصیرت افروز گفتگو میںشاید موضوع سے ہٹ کر بھی بہت کچھ تھا۔تاہم ان کے اٹھائے ہوئے نکات غور و فکر کے متقاضی تھے ۔
اب چائے کا وقفہ تھاجس میں چائے کے ساتھ کچھ ''وائے '' بھی مہیا کیا جارہا تھا۔گزشتہ کچھ عرصے سے یہ'' بدعتِ حسنہ'' تحریکی اجتماعات میں رواج پاتی جارہی ہے۔
مکتبے کے اسٹال پر رعایتی قیمت پر تحریکی لٹریچر دستیا ب تھا۔ اس اجتماع کے موقع پر نشور کی سالانہ خریداری میں نصف کی رعایت کا اعلان کیا گیا تھا۔تحریکی ڈائری بھی رعایتی قیمت پر مہیا کی جارہی تھی۔ وقفہ مختصر دورانیے کا تھا۔چند ہی لوگوں سے ملاقات ہوسکی تھی کہ اجتماع دوبارہ شروع ہونے کا اعلان ہوگیا۔وقفے کے بعد عبدالنافع نے ایک نظم پیش کی۔
اور اب محترم امیرِ تحریکِ اسلامی ، حافظ سید زاہد حسین صاحب خطاب کرنے تشریف لارہے تھے۔'ایک پرجوش مقرر جو دلوں کو ایمان ویقین سے لبریز کردے۔'یقین محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم '' کی تصویر! جن کی قیادت میںکام کرنے والے تمام کارکنان خود کو ایک کنبے کا فرد تصور کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کی قیادت کی گراں بار ذمے داری مسلسل تیسری بار آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔
حمدوثنا ء کے بعد مہمانانِ گرامی قدر،مقررین و سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
''(اس عنوان کے حوالے سے بات یہ ہے کہ) زمین پر اللہ کے دین کو قائم کرنے جدوجہد کرنا ہماری ذمے داری ہے۔ یہ ذمے داری صرف پاکستان کی حد تک نہیں اور منور حسن صاحب نے ایک موقع پر ایک بڑا قیمتی جملہ کہا تھاکہ'' تحریکی کارکن کا ذہن عالمی اور کام مقامی ہونا چاہیے''۔جس مقام پر ہمیں کام کرناہے اس کی فکر ہمیں سب سے زیادہ ہونی چاہیے ۔اپنے مقام ، پاکستان سے ہمارے کام کا آغاز ہوتا ہے ۔ہمارے عنوان کے دوسرے جزو، ''اسلامی حکموت کے قیام کی راہیں'' کے حوالے سے عرض ہے کہ یہ کسی مخصوص فرد ، گروہ یا جماعت کے اقتدار کی بات نہیں بلکہ نظریے یعنی اسلام کی حکومت کی بات ہے۔اسلامی نظام کے قیام کا ہدف و تمنا رکھنے والے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ انقلاب کس کے ہاتھوں برپا ہوتا ہے یا اس کا سہرا کس کے سر بندھتا ہے۔اسے فکر صرف اتنی ہونی چاہیے کہ وہ اپنا کام کماحقہ کرگیاہو۔ کوئی جماعت یا کوئی اتحادیہ کام کر گزرے ، ہمارے لیے یکساں ہے۔ اللہ کے دین کو اس سرزمین پر قائم و نافذ کرنا والا ہر گروہ اور جماعت ہماراہی کام کررہا ہے۔اسی فکر کو ہمیں اپنی فکر بنانا اور لوگوں میں عام کرنا ہے۔اس کام کو کرنے کے لیے بنیادی بات یہ ہے کہ عوام الناس کے سامنے اپنے کام کو واضح کرنا، اسلامی نظام کے قیا م کی پیاس پیدا کرنا، معاشرے کو تیار کرنا، یہ کام کیے جائیں۔اسلامی معاشرے میں حکم ران کے انتخاب کا معاملہ دوسراہے۔ لیکن جب اسلامی معاشرہ ہی موجود نہ ہو وہاں معاملہ دوسرا ہوگا۔ اسلامی نظام آمرانہ یا جبری حکومت نہیں جو لوگو ں پر جبراً مسلط کردی جائے یا مسلط رکھی جائے ۔ اسلامی نظام کی ضرورت کے حوالے سے عام طور پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں کہ دیگر نظام عام طور پر ناکام ہوچکے ہیں ، اسلامی نظام مسائل کا حل ہے ،فلاحی نظام کا قیام، ملک میں ظلم ، جبر، اخلاقی گراوٹ، امن و استحکام اور دیگر دنیاوی مسائل کے حل کے لیے اسلامی نظام کو قائم کرنا چاہیے۔ بلاشبہ ایمان و عمل صالح مومن کو دنیا میں بھی نفع پہنچاتے ہیں ۔قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ایمان و عمل صالح کے نتائج کے طور پر ان نتائج کی بات کی گئی ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان تمام مقامات پر یہ دنیاوی فلاح و کامرانی کے وعدے ، محرک کے طور پر نہیں بلکہ نتیجے کے طور پر بیان ہوئے ہیں۔ یعنی دنیا میں اقامتِ دین کی جدوجہد کی بنیاد صرف اور صرف ہمارے ایمان میںہے۔تمام انبیاء کی دعوت''اللہ کی بندگی اور طاغوت سے اجتناب'' کی تھی۔بنی اسرائیل کے حوالے سے ہمیں یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی بارگاہ میںتمہارا کوئی عمل وقعت حاصل نہیں کرتا جب تک تم اس بنیادی ذمے داری کو ادا نہ کرو۔ جس طرح نماز قائم کرنا اقیموالصلوٰۃ ہے اسی طرح اقیموالدین کی فکر کو لوگوں میں عام کیا جائے۔آج اگر طاغوت کاصحیح تصور لوگوں میں عام ہوجائے تو ہمارے راستے کی بہت سی رکاوٹیں خود بخود دور ہوجائیں۔ہمارے کام کا سب سے پہلا حصہ اس معاشرے کو اسلام کے لیے تیار کرنا ہے کہ اقامت دین فرد کی ذمے داری ہے۔اسلامی حکومت کے قیام کے حوالے سے اولین کام نظریہئ اسلام پر یقین واعتمادپیدا ہے۔ تحریکی کارکنوں میں بعض اوقات اس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔دوسرا کام نظریاتی قیادت ہے۔ لوگوں میں عدم توازن نہ پیدا ہو کہ کسی ایک پر اکتفاء کرجائیں۔ نظریہ اور شخصیت دونوں کی ہمیں ضرورت ہے۔آج قیادت کا فقدا ن ہمیں محسوس ہوتا ہے۔قیادتوں کی ذمے داری بہت بڑی ہے۔ انہیں نظریاتی کارکن تیار کرنے ہیں۔خارج کے ساتھ کام کا یہ داخلی پہلو بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ایک ایسی مثالی اجتماعیت کا قیام جو اسلام کی نشأۃ اولیٰ کی یاد تازہ کرے ۔ اس اجتماعیت میں اسلام مغلوب نہ ہو۔ مکہ میں اسلامی ریاست قائم نہ تھی، لیکن مکے میںکوئی حکم ایسا نہ تھا جو نازل ہواہو اور جس پر عمل نہ ہواہو۔ اقامتِ دین کی جماعتوں کو واقعی ایسا ہونا چاہیے ۔ ان کے کارکنوں کا قیادت پر اور قیادت کا کارکنوں پر اس درجے کا اعتمادہو کہ ہر کارکن تنظیم کا نمائندہ قرار پائے۔ یہ تنظیم اس غلط نظامِ زندگی کے خلاف جدوجہد کرے جو ہم پر حاوی ہے۔ آج بھی اور جب بھی اسلامی انقلاب کی جدوجہد کی جائے گی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کی جائیں گی ۔ایک بڑی غلطی جو ہم سے ہوجاتی ہے وہ یہ کہ معاشرے کو تبدیل کیے بغیر اسلامی حکومت کے قیام کی توقع کی جائے۔ دوسری بات یہ کہ اجتماعیت میں وسعت کی خاطر اجتماعیت کے معیار پر سمجھوتا کر لیا جائے ۔ تطہیرِ افکار، تعمیرِ سیرت، تنظیم اور اصلاحِ معاشرہ و تبدیلی قیادت ہی کام کی فطری ترتیب ہے۔بات مکمل کرنے کے لیے اور جو گفتگو ہوئی اسے سمیٹنے کے لیے نہ کہ کسی منہج اور طریقے کو غلط یا ثابت کرنے کے لیے میں صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مختلف طریقوں کی بات ہوئی۔ کسی طریعے کے سنت سے قریب ہونے کی بات یا شریعت میں اس کی گنجائش ہونے کی بات الگ ہے وہ الگ معاملہ ہے، لیکن جہاں تک کسی طریقے کی ناکامی کی بات ہے ، مثلاً انتخابی طریقے کی کی بات کی جائے کہ نفاذِ اسلام کے لیے یہ ناکام ہوچکا ہے تو اس پر بڑے غور و غوص کی ضرورت ہے۔ ملک میں یہی طریقہ رائج ہے۔ سید مودودی ؒ نے جو بنیادی اسکیم اس کے لیے اختیار کی تھی، جو مکمل اسکیم اس کے لیے رکھی گئی تھی،اس پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔معاشرے کو اس کام کے لیے پورے طور پر تیار ہی نہیں کیا جاسکا۔اس طریقے کی خامیاں اپنی جگہ ہیں لیکن اس طریقے کی ناکامی کا دعویٰ قبل از وقت ہوگا۔اس امت کی پہلی ریاست قتال کے بغیر قائم ہوئی۔ اپنی وسعت ، استحکام کے مراحل میں قتال کے مراحل سے گزرنا پڑا۔جب اپنی ذمے داری کے بنیادی کام کو صحیح طور پر انجام دیا گیا ، اللہ کی طرف سے اگلے مرحلے کی طرف رہ نمائی کردی گئی۔ آج بنیادی کام جو ہم سب مل کرسکتے ہیں اور ہمیں کرنا چاہیے وہ یہ کہ معاشرے کو اسلام کے لیے تیار کیا جائے ۔ اپنی اپنی اجتماعیتوں کو اسلام کے مطابق اس طرح مستحکم کرنا کہ واقعی وہ غلبہ ئ اسلام کے لیے کردار ادا کرسیکیںتو یقینا یہ ہمارے لیے آگے بڑھنے کا اور اللہ رب العزت کے حضور برأت کا سامان کرنے کاموجب ہوگا۔
؎ دیکھنا تقریر کی لذت اس نے جو کہا    میں نے جانا گویا یہ بھی میرے دل میں تھا!
محترم امیرِ تحریک موقع کی مناسبت سے عوام سے زیادہ قیادتوں سے مخاطب تھے۔کرنے کے سب سے اہم اور بنیادی اور حقیقتاً سب سے زیادہ فراموش شدہ کام ،طاغوت کے درست تعارف کو عام کرنے اور معاشرتی صف بندی کرنے کی طرف متوجہ کررہے تھے۔ انبیاء
Eجس کام کو کرتے رہے اوران ہی کی پیروی میں سید مودودیؒ نے جو کام ''قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں'' لکھ کر کیا۔دل سے دعا نکلی ؎تری آواز مکے مدینے !
آخر میں قاضی اختر حسین قریشی اور راقم الحروف نے دو قراردادیں پیش کی گئیں جن کی حاضرین نے منظوری دی۔دعا پر اس اجتماع کا خاتمہ ہوا۔حقیقتاً کئی اعتبار سے یہ اجتماع یادگار رہا۔تمام کارکنان و معاونین مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے دن رات اس اجتماع کی کام یابی کے لیے اور درحقیقت رب العزت کی بارگارہ میں اپنی مغفرت کے سامان کی خاطر محنت کی۔ برادر تنظیمات کے مہمانانِ گرامی بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے تحریک کی دعوت پر مثبت جواب دیا۔اللہ سب کے اخلاص کو قبول فرمائے،
کارکنان تحریک کے لیے مہم ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ آئندہ ان معیارات کو برقرار رکھنا اور ان میں مزید بہتری لانا یقیناً کارکنان کے لیے ایک بڑا چیلینج ہے جس کے لیے ابھی سے کمرِ ہمت کس لینی چاہیے۔!
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کااتمام ابھی باقی ہے!

No comments:

Post a Comment