Monday, 9 February 2015


احساسات

پشاورکاسانحہ! دل کے زخموں میں ایک اور زخم کا اضافہ کرگیا۔ یارب! اب تو یہ زخم ناسور بن چلے ہیں۔ اب تو چارہ گروں کوکچھ ہنروتدبیرِ مسیحائی عطاہو۔عجیب مریض کے وہ غریب چارہ گر جن کے اوزارِ مسیحائی میںشاید صرف ایک نشتر ہی بچا ہے۔ ہر مرض کا چارہ اسی کو سمجھتے ہیں اور گاہے مرہم بھی لگاتے ہیں تو اسی کی نوک سے!
پوری قوم دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ متحدو یک آواز رہی ہے۔ دہشت گردی کی مذمت کون نہیں کرتاہر کوئی اس کا فی الفور خاتمہ چاہتاہے اور اس بات کے حق میں ہے کہ دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔قوانین بھی موجود ہیں ، عدلیہ بھی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی۔ کمی شاید عزم کی ہے جو دہشت گردی کے حقیقی اسباب کی بیخ کنی کرنے کی بجائے''ناپسندیدہ عناصر''کا صفایا کرنے تک محدود رہاجاتا ہے۔ 
سانحہئ پشاور کی مذمت بجا، دہشت گردوں(یادہشت گردی؟)کے خاتمے کا عزم درست لیکن کیااس سوگ کو اشتعال میں بدلنے کی کوشش اور اس کی آڑ میں'' اسلامی جمہوریہ ''کو ''عوامی جمہوریہ''بنانے کی سازش کی جارہی ہے؟یاد رہے پاکستان ،مصر نہیں اور ترکی کا تجربہ بھی بالآخر سیکولرازم (درحقیقت سیکولر ازم کی داعی فوج)کی ہزیمت پر منتج ہوا ہے!
ملک آخر کار اس نہج پر آہی گیا جس پر لانے کے لیے مقتدرقوتیںگزشتہ کافی عرصے سے بے چین تھےں۔ دھرنوں کی کام یابی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ فوجی عدالتوں کے ڈسے ہوئے سیاست دانوں کے ہاتھوں ہی ٢١ ویں ترمیم منظور کرائی گئی اور بھاری اکثریت رکھنے والی حکومت نے بالآخر ربرسٹیمپ کا کردار قبول کرہی لیا۔ ٢١ ویں ترمیم پر بہت کچھ کہا گیا اور کہا جارہا ہے لیکن مسئلہ اچھے اور برے دہشت گردوں کی تعریف یامذہبی اور سیکولر دہشت گردوں میں تفریق کا نہیں ، کسی کو غلط فہمی ہے تو جلد دور ہوجائے گی۔وہ دستور جس کے تقدس کی دہائیاں دی جاتی ہیں اور جس کی'' رِٹ'' قائم کرنے کے نام پراس آئین کے''باغی'' کا خون مباح ہوجاتا ہے،وہ دستور جس کی دی گئی چند ضمانتیں اس نظام میں شریک دینی قوتوں کا مبلغ سرمایہ ہیں۔وہ ضمانتیں جنہیں یہ دینی جماعتیں بروئے کارلانے کے لیے آج تک میدانِ عمل میں سرگرداںہیں۔٢١ ویں آئینی ترمیم کے بعد اسی دستور کی ''رِٹ''کا جنازہ نکالنے سے کہیں بڑھ کر اس کی روح قبض کرلی گئی ہے۔ آئندہ دینی قوتوںکے کام کا نقشہ کیا ہوگااس سوال کے جواب پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے؟
حق اور باطل کا معرکہ قدیم ضرور ہے مگرآج شایدیہ اتنا سادہ نہیں کہ عام آدمی بغیر کسی تردد کے اس معرکے کی نوعیت جان سکے اور اس میں اپنے مقام کا تعین کرسکے ۔دوفریقوں کی کشمکش میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں میں سے ایک لازماً حق پر ہو اور دوسرا باطل پر۔ یہاں ایسا بھی ہوتا ہے کہ باطل کے مقابلے میں کھڑا ہونے والا دوسرابھی باطل ہی نکلتا ہے۔فرق شاید چھوٹی یا بڑی برائی کا ہو!
آج کی جنگ بارود سے کہیں بڑھ کر پروپیگنڈے سے جیتی جاتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پر کس کا قبضہ ہے یہ کوئی راز نہیں۔ آج سوات آپریشن کی بنیاد بننے والی ویڈیو کی حقیقت اس کے تمام کرداروں کے تعارف و مقاصد سمیت سامنے آچکی لیکن اسے کیا کہیے کہ آج بھی دھڑلے سے اس جعلی ویڈیوکو اصلی باور کراتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والے آپریشن کو وقت کی ضرورت اور'' ہماری جنگ''کی ایک پیش قدمی ثابت کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔''کوڑو ںکی شریعت'' نافذ کرنے کا الزام کلنک کا ٹیکا بن کر دینی قوتوں کے ماتھے پر آویزاں کردیاگیا ہے۔ 
آج پھر اعداد وشمار اور رائے شماری کے جائزے سامنے آرہے ہیں جس کے تحت تمام حکومتی اقدامات کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ان ہی جائزوں کی بنیاد پر ہراختلافی موقف کو خواہ وہ کیسی ہی نصیحت اور خیر خواہی کی بات مبنی کیوں نہ ہو، کچل ڈالنے کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔ ایسے ہی جائزوں میں جو ''جائز '' قسم کے دانشور وں کی جانب سے ہیںدہشت گردی کے تانے ''سیاسی اسلام'' سے جوڑے گئے ہیںاور اصلاح کی اصل اس فساد کی جڑ پر وار کرنا بتایا گیا ہے۔ 
ریل کے سفر کی اصطلاح میں یہ کانٹا بدلنے کا مرحلہ ہے! معاشرے کی سمت تبدیل کرنے کے اقدامات بہت پہلے سے شروع ہوچکے تھے ، ریاست کی سمت تبدیل کرنے کا مرحلہ شاید اب آیا ہے!
بحیثیت کارکنِ تحریک اسلامی حالات پر نظر رکھنا ہماری ضرورت ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان اسباب کا تجزیہ ہے جن کے نتیجے میں یہ حالات پیدا ہوئے ہیں ۔ اپنے حصے کا کام بروقت نہ کرنے کا نتیجہ آئندہ زیادہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اپنے حصے کا کام ہمیں ہی سرانجام دینا ہے۔ مالک کے حضور سرخ روئی اور دنیا میں کامیابی کی واحد صورت اپنی ذمے داریوں کا شعور اور ان کی اخلاص کے ساتھ ادائی کی کوشش ہے۔ کتاب وسنت سے وابستگی اس کام کی بنیاد اور تعلق باللہ اس راستے کا زادِ راہ ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرانس میں توہین رسالت مآب  ﷺپر مبنی خاکوں کی حالیہ اشاعت اور اس حوالے سے ہونے والے واقعے میں کئی افراد کی ہلاکت کے بعد صورتِ حال بہت سنگین ہے۔ بحیثیت مسلم یہ امر ہمارے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہے کہ رسول اللہﷺکی شان میں ہمارے جیتے جی گستاخی کی جائے۔ امت کی زندگی اگررسول اللہﷺکی اطاعت میں ہے تو اس کی موت آپ ؐکی توہین برداشت کرنے میں ہے۔ اس معاملے کے فقہی پہلو سے قطع نظر اس سارے معاملے کے بہت سے پہلو غور طلب ہیں ۔
١۔     مغرب کی جانب سے توہین ِ رسالت ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کی جارہی ہے۔ دیگرجنگی جرائم کے ساتھ ساتھ یہ جرم آزادیئ اظہار کے نام پر باقاعدہ ریاستی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔ ریاستی سطح پر ہم اس کا جواب دینے کے اہل نہیں۔ اس کا توڑ کس طرح کیا جاسکتا ہے اس پر غوروفکر ہونا چاہیے۔
٢۔    ردِّ عمل کے تحت جو کاروائیاں کی جارہی ہیں ان کے ضمنی اثرات پر بھی غور کیاجانا چاہیے۔ بعض اوقات ایک کام کے ضمنی منفی اثرات اس کام کے اصل مثبت اثرات سے بڑھ جاتے ہیں۔
٣۔     مغرب اپنے اصل حریف کے طور پر''سیاسی اسلام''کو سامنے لارہا ہے۔
٤۔    مسلم نوجوانوں کے جذبہ ئ عقیدت و محبت رسولﷺکو برقرار رکھنا اور اس کا اصل مفہوم اور تقاضے انہیں سمجھانا،اندرونی سطح پر کرنے کے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرانس ،جہاں یہ واقعہ پیش آیا،اس کا سیکولرازم انتہائی جارحانہ نوعیت کا ہے جو دیگر یورپی ملکوں کے برخلاف اسلامی شعائر مثلاً حجاب تک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے اور اس پر پابندی عائد کرچکا ہے۔ فرانس میں اس حوالے سے باقاعدہ مہم چلائی جارہی ہے کہ فرانسیسی اقدار کو ''سیاسی اسلام'' سے خطرہ ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس مہم میں دائیں بازو(مذہب پسند عیسائی) اور لبرل دونوںروایتی حریف متحد ہیں۔
''سیاسی اسلام'' تو ایک طرف فرانس میں ان دنوں ''کباب فوبیا'' بھی زوروں پر ہے اور دائیں بازو والوں کو کباب ایسے مشرقی کھانے(جو روایتی طور پر مسلم خواراک تصور کی جاتی ہے) سے اپنی ثقافت خطرے میں پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے سے فرانس کے پارلیمانی اور بلدیاتی انتخابات میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے امیدواروں نے اپنی انتخابی مہمات میں بھی کباب کے بڑھتے ہوئے کاروبار کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے مشرقی اور غیر ملکی کھانوں کو فرانس کی تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار کے لیے خطرہ قرار دیا اور ساتھ ہی ان پر پابندی کا عزم ظاہر کیا۔
''اسلامو فوبیا''اس حد تک ان کے ذہنوں پر حاوی ہے کہ اس کے حوالے سے باقاعدہ ناول تک لکھے جاچکے ہیں۔ حال ہی میں فرانس میں ایک ناول
Submission(اطاعت، فرمانبرداری) شائع ہوا ہے۔جس میں ٢٠٢٢؁ء کے فرانس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ فرانسیسی معاشرہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکتا رہتا ہے اور آخرکار ٢٠٢٢؁ئ میں ایک مسلمان جماعت کا رہنما ملک کا صدربننے میں کام یاب ہوجاتا ہے ۔
''اسلامی جمہوریہ فرانس'' کی جو منظر کشی مصنف کے ذہنِ رسا سے ممکن ہوسکی اپنی خصوصیات کے اعتبار سے وہ بس یہی تھی کہ یونیورسٹیوں کو قرآن پڑھانے پر مجبور کیا جاتاہے، خواتین کے لیے حجاب لینا ضروری ہو چکا ہے اور ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا قانونی حق بن گیا ہے۔ خواتین کا پردہ معمول کی بات بن جاتی ہے۔تاہم مصنف محض ''منفی'' پہلو ہی اجاگر کرنے تک محدود نہیںرہا بلکہ اس نے کچھ مثبت نکات بھی اٹھائے ہیں مثلاً عورتوں کے گھر میں بیٹھنے اور ملازمتیں چھوڑ نے کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میںملک میں بے روزگاری کم ہو جاتی ہے،سخت گیر شرعی قوانین کے نفاذ کے بعد فرانس میں جرائم کا دور دور تک نشان نہیں رہتا۔اس سے قبل اسی موضوع پر ایک اور ناول بھی مقبول ہوچکا ہے ''لی سوسائڈ فرانسیا ''(فرانسیسی خود کشی) نامی یہ ناول بھی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی ایرک زمور نے لکھا تھا اور اس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ فرانس اخلاقی طور نئے اور زیادہ پراعتماد اسلام کے سامنے مجبور ہو چکا ہے اور اس سے شکست کھا رہا ہے۔اس ناول کا مصنف ماضی میں اسلام کو ''احمقانہ مذہب'' قرار دے چکا ہے۔ تاہم اب اس کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے اور وہ کہتا ہے کہ خدا اور مذہب کے انکار کے بعد مذہب کی واپسی ایک اچھی چیز ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اب وہ بھی ملحد نہیں رہا، بلکہ اس کے بقول روشن خیال انسان کو جس آفاقی خالی پن یا دماغی خلا کا سامنا ہے، اس سے تو اسلام بھی بہتر ہے۔'' آخر کار جب میں نے قرآن کو دوبارہ پڑھا، بلکہ پہلی مرتبہ پڑھا تو مجھے لگا کہ یہ کتاب میرے خیال سے خاصی اچھی ثابت ہوئی''۔مغربی تہذیب کے خلاف یہ ایک اورگھر کی گواہی ہے!
یہ ناول شاید پروپیگنڈے کی غرض سے آنے والے دور کی اپنے تئیں ایک بھیانک منظر کشی ہو نہ ہو،مغربی تہذیب اور سیکولر ازم کی ناکامی کی ایک فردِ جرم ضرور ہے۔اس کے مثبت یا منفی اثرات تو وقت گزرنے کے ساتھ ہی سامنے آسکیں گے۔ تاہم موجودہ حالات میںیہ ہمارے لیے مستقبل کی ایک اچھی تصویر ضرورہے۔ غلبہئ اسلام اللہ کا وعدہ ہے۔ وہی اسے پورا کرے گا۔ ہماری ذمے داری اپنے حصے کا کام اخلاص و جانفشانی سے کرنااور کرتے چلے جانا ہے۔ وما علینا الاالبلاغ
(نشور۔ یکم تا 31 جنوری، 2015ء)

No comments:

Post a Comment